کتاب: روشنی - صفحہ 124
اس روایت کے متن پر بعد میں روشنی ڈالوں گا۔
۳… (( لا یزال فی أمتی ثلاثون، بہم تقوم الأرض وبہم تُمطرون وبہم تُنصرون۔))
’’میری اُمت میں ہمیشہ تیس افراد ایسے رہیں گے جن کے ذریعہ زمین قائم رہے گی ، انہی کے ذریعہ تم پر بارش ہو گی اور انہی کے ذریعہ تم کو فتح و نصرت حاصل ہوگی۔‘‘
یہ روایت بھی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی نسبت سے مروی ہے جس کی مسند کے دو راویوں ، عمرو بزار اور عنبسہ خواص کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف اور ساقط الاعتبار ہے، حافظ نور الدین علی بن ابی بکر ہیثمی نے مجمع الزوائد میں (ص: ۶۳، ج:۱ )میں لکھا ہے:
اس کی رو ایت طبرانی نے عمرو بزار اور عنبسہ خواص کی سند سے کی ہے، میں ان دونوں راویوں کو نہیں جانتا، بقیہ راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں:
۴… ((خیار أمتی فی کل قرن خمس مائۃ ، والأبدال أربعون فلا الخمسمائۃ ینقصون و لا الأربعون، کلما مات رجلٌ أبدل اللّٰہ عزوجل من الخمس مائۃ مکانہ و أدخل من الأربعین مکانہ ، قالوا: یا رسول اللّٰہ! دُلنا علی أعمالہم ، قال: یعفون عمن ظلمہم ، ویُحْسنون إلی من أساء إلیہم ، ویتوا سون فیما آتاہم اللّٰہ عزوجل۔))
’’میری اُمت میں بہترین اور چنیدہ لوگوں کی تعداد ہر صدی میں پانچ سو رہے گی جن میں سے چالیس ابدال ہوں گے، نہ پانچ سو میں کمی ہو گی اور نہ چالیس میں، جب بھی ان میں سے کوئی آدمی مرے گا تو اللہ عزوجل پانچ سو میں سے اس کی جگہ دو سرا آدمی پیدا کر دے گا اور چالیس میں سے بھی۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں بتایئے۔ فرمایا: وہ اپنے اوپر