کتاب: روشنی - صفحہ 122
۱…(( إن الأبدال بالشام یکونون، وہم أربعون رجلا، بہم تُسقَون الغیث ، وبہم تنصرون علی أعدائکم ، یصرف عن أہل الأرض البلاء والغرق۔))
’’درحقیقت ابدال شام میں ہوں گے، وہ چالیس مرد ہیں، انہی کے ذریعہ تمہیں بارش سے سیراب کیا جائے گا، انہی کے ذریعہ تم کو اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوگی اور انہی کی وجہ سے اہل زمین سے مصائب اور غرقابی کے حوادث دُور کیے جائیں گے۔‘‘
یہ روایت شریح بن عبید حضرمی اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے درمیان سند کے متصل نہ ہونے ، بلکہ منقطع ہونے کی وجہ سے اگرچہ صرف ضعیف ہے ، لیکن ان ابدال کے صرف شام میں ہونے، ان کی تعداد اور صفات کے دعوے نے اس کو ناقابل اعتبار قرار دے دیا ہے۔
اس کے علاوہ ابدال سے متعلق دوسری جو روایتیں فضائل و مناقب کی کتابوں میں منقول ہیں وہ یا تو منکر ہیں یا پھر موضوع۔ میں پہلے چند روایات کا ذکر کر دینا چاہتا ہوں اس کے بعد ان کے مضمون کے ہر ہر پہلو کی وضاحت کر کے یہ دکھاؤں گا کہ ابدال کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ یہ صو فیا کے مشرکانہ عقیدے کی پیداوار ہے اور چونکہ ابدال اور ان کے مماثل دوسرے صوفیا کے گروہوں کی مجموعی تعداد ۱۲ ہے اور ان کی عصمت اور کائنات میں ان کے صاحب تصرف و اختیار ہونے کا عقیدہ شیعہ فرقے کے اس عقیدے سے مشابہ ہے جو وہ اپنے ائمہ کے بارے میں رکھتے ہیں، لہٰذا ابدال کا عقیدہ شیعوں کے عقیدۂ نقباء سے ماخوذ ہے، فرق صرف یہ ہے کہ شیعہ فرقے کے معصوم ائمہ کا اہل بیت سے ہونا ضروری ہے، جب کہ صو فیا کے ابدال اور دوسرے اکابر کے لیے یہ شرط نہیں ہے، واضح رہے کہ شیعہ کے نقباء کی تعداد بھی ۱۲ ہے اور فضائل و مناقب کے باب میں صوفیا کے عقائد شیعہ فرقے کے عقائد سے مشابہ ہیں، اگر ان میں اور شیعوں میں کوئی بنیادی فرق ہے تو وہ یہ کہ اہل سنت و جماعت سے نسبت رکھنے والے صوفیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے نفرت نہیں کرتے اور نہ کسی کے حق میں