کتاب: روشنی - صفحہ 121
فضائل اعمال کے مصنف کو اپنے القاب کی رعایت کرتے ہوئے اس طرح کے گمراہ کن اور غیر ذمہ دارانہ واقعات اور قصوں کے بیان سے اپنی قرطاسِ حیات کو دا غ دار نہیں بنانا چاہیے تھا، کیونکہ ان سے اللہ کے جن بندوں کے عقائد بگڑ رہے ہیں ان کے بگاڑ میں ان کا بھی حصہ ہے ۔
مذکورہ بالا واقعہ پر طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد میں چاہتا ہوں کہ اس میں شامل ہر ہر دعوے کی حقیقت بیان کر دوں تاکہ قارئین یہ جان سکیں کہ اس طرح کے واقعات کے بیان سے کس طرح کے عقائد کا پھیلانا مقصود ہے؟
ابدال کی حقیقت
ابدال اور اس طرح کے دوسر ے القاب کے حامل اولیاء اللہ کا عالم واقعہ میں کوئی وجود نہیں پایا جاتا، بلکہ صرف صوفیا اور ان کی کتابوں میں ان کا وجود ہے جس کے پیچھے ایک خاص عقیدہ و فکر کارفرما ہے، یعنی اولیاء کائنات کے انتظام و انصرام اور اُمور عالم چلانے میں کسی نہ کسی حد تک شریک ہیں، اسی وجہ سے ابدال اور دوسرے اولیاء ، مثلاً: اغواث ، اوتار، اقطاب اور نجباء وغیرہ کی متعینہ تعداد ہے اور جن ملکوں میں پائے جاتے ہیں، یا جن ملکوں میں ان کو پایا جانا چاہیے ان کی بھی صراحت ہے اور چونکہ ان اولیاء کی صفات اور ان کے اختیارات و تصرفات صوفیانہ عقائد کے غماز ہیں اور صوفیا کے علاوہ دوسری جماعتوں کے حلقوں اور کتابوں میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا، اس لیے پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ابدال و اقطاب کی اصطلاحیں گھڑنے اور ایجاد کرنے والے صرف صوفیا ہیں۔
صوفیا کے حلقوں میں زبانِ زد اور ان کی کتابوں میں متداول مختلف القاب کے حامل اکابر صوفیا میں سے صرف ابدال کا ذکر ایک روایت میں آیا ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے ، لیکن اس کی سند شریح بن عبید حضرمی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان منقطع ہے۔[1] اس روایت کے الفاظ ہیں:
[1] تاریخ دمشق، ص: ۶۷، ج:۱.