کتاب: روشنی - صفحہ 120
پندار کی غمازہے۔
اس و اقعہ کو نقل کرنے والے بزرگ کے نام کے ساتھ امام اور محدث لکھا جاتا ہے اور اپنے مریدوں کے درمیان ان کا ایک اور لقب بھی مشہور ہے :’’ قطب الارشاد‘‘ بایں ہمہ موصوف نے مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کرنے ، ان کو تقویٰ شعار بنانے اور ان کی بے دینی کو دین داری میں بدلنے کے لیے ’’فضائل اعمال‘‘ کے زیر عنوان جو کتاب لکھی ہے۔ اس کو توحید کے منافی واقعات، حد درجہ گمراہ کن اور جھوٹے قصوں اور موضوع اور جھوٹی روایات سے بھر دیا ہے۔ اس طرح یہ کتاب ہدایت نامہ نہیں ضلالت نامہ بن گئی ہے۔
اس واقعہ کے ضمن میں جتنے دعوے کیے گئے ہیں سب جھوٹے اور بے بنیاد ہیں؛ ابدال کی کوئی حقیقت نہیں۔ خضر علیہ السلام کا وجود محض افسانہ ہے ، ان کے نبی ہونے یا ولی ہونے ، اسی طرح ان کی زندگی اور بزرگانِ دین اور اکابر سے ان کی ملاقاتوں کے واقعات من گھڑت اور خودساختہ ہیں اور قرآن پاک میں ان کا نام لیے بغیر ان سے منسوب جن تین اعمال کا ذکر آیا ہے ان کی بنیاد پر ان کو موسیٰ علیہ السلام سے افضل قرار دینا اور ارشادِ الٰہی: ﴿ آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا ﴾ (الکہف:۶۵) ’’ہم نے اسے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنے پاس سے اس کو ایک علم سکھایا تھا۔‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے ’’علم لدنی‘‘ کے نام سے ایک خاص علم کا دعویٰ فہم قرآن سے نابلد ہونے کی علامت ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
اگر واقعہ میں مذکورہ جوان سے ملنے والے خضر علیہ السلام ہوتے تو اس کی جاہلانہ باتوں کو سن کر اس کو ولی قرار دینے کے بجائے اس کی سخت سرزنش کرتے ، کیونکہ ’’ قرآنی ولی‘‘ کی بنیادی صفتیں ایمان اور تقویٰ بتائی گئی ہیں اور جو ان سے عاری ہو وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ سے وحی کس طرح حاصل کر سکتا ہے ، یہ وحی تو اشرف الخلق ، سیّد ولد آدم اور خاتم الانبیاء محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ سے براہِ راست نہیں، بلکہ جبریل علیہ السلام کے واسطہ سے سنتے اور وصول کرتے تھے۔