کتاب: روشنی - صفحہ 119
ایمان بالرسالت کے تقاضے مسئلہ:…ایک نہایت مشہور و متداول دینی کتا ب ’’فضائل اعمال… فضائل حج‘‘ میں ایک واقعہ پڑھا ہے جس کے بارے میں قرآن و حدیث پر مبنی آپ کا نقطۂ نظر جاننا چاہتا ہوں ۔ واقعہ حسب ذیل ہے: ’’ابدال میں سے ایک شخص نے حضرت خضر سے دریافت کیا کہ تم نے اپنے سے زیادہ مرتبہ والا کوئی ولی بھی دیکھا؟ فرمانے لگے:’’ہاں دیکھاہے۔‘‘ میں ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں حاضر تھا ، میں نے امام عبدالرزاق محدث کو دیکھا کہ وہ احادیث سنا رہے ہیں اور مجمع ان کے پاس احادیث سن رہا ہے اور مسجد کے ایک کونے میں ایک جوان گھٹنوں پر سر رکھے علیحدہ بیٹھا ہے۔ میں نے اس جوان سے کہا کہ تم دیکھتے نہیں کہ مجمع حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سن رہا ہے ، تم ان کے ساتھ شریک نہیں ہوتے، اس جوان نے نہ تو سر اٹھایا نہ میری طرف التفات کیا اور کہنے لگا کہ اس جگہ وہ لوگ ہیں جو رزاق کے عبد سے حدیثیں سنتے ہیں اور یہاں وہ ہیں جو خود رزاق سے سنتے ہیں نہ کہ اس کے عبد سے۔ حضرت خضر نے فرمایا: اگر تمہارا کہنا حق ہے تو بتاؤ کہ میں کون ہوں؟ اس نے اپنا سر اٹھایا اور کہنے لگا کہ اگر فراست صحیح ہے تو آپ خضر ہیں۔ حضرت خضر فرماتے ہیں: اس سے میں نے جانا کہ اللہ جل شانہ کے بعض ولی ایسے بھی ہیں جن کے علو مرتبہ کی وجہ سے میں ان کو نہیں پہچانتا۔ حق تعالیٰ شانہ ان سے راضی ہو اور ہم کو بھی ان سے نفع پہنچائے۔‘‘ [1] جواب:…سائل کا بیان کردہ مذکورہ بالا واقعہ سراسر جھوٹ اور من گھڑت ہے اور اس واقعہ کی ہر ہر بات خود ساختہ، اسلامی روح سے متصادم ، محدثین کی تحقیر ، جہالت اور نمرود و
[1] ص: ۱۲۸، ۱۲۹.