کتاب: روشنی - صفحہ 117
گاہوں میں تبدیل کرنے کے بارے میں اسلام کی جو واضح تعلیمات گزشتہ صفحات میں کسی کتروبیونت کے بغیر پیش کی گئی ہیں، ان کو اگر غور سے اور تعصبات سے ذہن و دماغ کو پاک کر کے اس توحید کی روشنی میں پڑھا جائے جو اسلام کا طرۂ امتیاز ہے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ اسلام میں زیارت قبور کی اجازت صرف عبرت اور درس حاصل کرنے کے لیے دی گئی ہے۔ عبرت و درس اس بات سے کہ موت لازمہ بشریت ہے جس سے انبیاء ، اولیاء اور صالحین میں سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں رہا ہے، یعنی زیارت قبور موت و آخرت کی یاد کو تازہ رکھتی ہیں۔ گزشتہ صفحات میں جذبات و تعصبات سے پاک رہ کر دلائل و براہین کی زبان میں یہ بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ زیارت قبور سے اصحاب قبور کی تعظیم، تقدیس اور تکریم سرے سے مقصود ہے ہی نہیں، اسی لیے اس زیارت کے لیے انبیاء اور اولیاء اور صالحین کی قبروں کی تخصیص نہیں کی گئی جس کی افادیت کا اندازہ ان مشرکانہ اعمال یا بدعتوں کے مشاہدے سے لگایا جا سکتا ہے جن کا ارتکاب برصغیر کے ملکوں میں پھیلے ہوئے مزاروں کے زائرین عموماً اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے زائرین خصوصاً کرتے ہیں۔ جن کی ایک جھلک مولانا علی میاں کی کتاب ’’ تاریخ دعوت و عزیمت ‘‘ کی درج ذیل عبارت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اعتقادی کمزوری اور شرک و بدعات کا زور کے زیر عنوان مولانا لکھتے ہیں: ’’قرآن مجید کے اعلان ’’اَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ‘‘کے خلاف بکثرت عوام کی زندگی ، مسلم معاشرہ میں بدعات کا زور، ہندؤں اور شیعوں کے بہت سے رسوم و عادات کی تقلید تھی۔ شرک جلی کی ایسی متعدد صورتیں بہت سے مقامات اور حلقوں میں پائی جاتی تھیں، جن کی کوئی علمی توجیہ ممکن نہیں ، کھلی ہوئی قبر پرستی ، مشائخ کے لیے سجدۂ تعظیمی، مزارات اور اس کے قرب و جوار کا حرم کے احترام، قبروں پر چادریں چڑھانا، منتیں ماننا، بزرگوں کے نام پر قربانیاں کرنا، مزارات کا طواف ، وہاں میلہ لگانا، تہوار منانا ، گانا بجانا اور چراغاں کرنا اور مختصر الفاظ میں