کتاب: روشنی - صفحہ 116
پہلو اور ہر ہر گوشے کا مشتہر ہونا ضروری تھا، اس تناظر میں حاجی صاحب کا یہ فرمانا کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہرت کو ناپسند فرماتے تھے‘‘منصب رسالت اور اس کے تقاضوں سے ان کی عدم واقفیت پر دلالت کرتا ہے اس لیے کہ اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے آپ کے فرائض منصبی میں یہ بات داخل تھی کہ آپ اپنی عبادتوں اور اپنی سیرتِ پاک کے ہر ہر گوشے اور پہلو سے اپنی اُمت کے ہر ہر فرد کو واقف ہونے کا موقع دیں تاکہ آپ کی پیروی کی جائے۔
لہٰذا مسجد نبوی کے قبلہ نہ بننے کا سبب یہ نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہرت کو ناپسند فرماتے تھے، بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ اللہ نے مسجد نبوی کو یہ حیثیت نہ دی یعنی اس کو قبلہ بنانے کا حکم نہ دیا، اس لیے وہ قبلہ نہ بنائی گئی۔
رہا حاجی صاحب موصوف کا آخری دعویٰ کہ ’’مسجد نبوی کی فضیلت قبر مبارک کی وجہ سے ہے۔‘‘ تو اس دعویٰ پر افسوس ہوتاہے اور تعجب بھی ۔ افسوس اس بات پر کہ برصغیر کے اکابر نے اس طرح کی بچگانہ سوچ رکھنے والے انسان کو اپنا پیرو مرشد کس طرح بنا لیا اور تعجب اس پر کہ جو چیز مسجد کا کوئی حصہ تھی ہی نہیں وہ اس کی فضیلت کا سبب کس طرح ہوئی؟ میری مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد کی فضیلت اپنی حیات پاک میں بیان فرمائی تھی، وفات پاجانے کے بعد نہیں ، کیونکہ وفات پا جانے کے بعد ایسا کرنا آپ کے لیے ناممکن تھا اور آپ کی وفات پر ۷۸ برس گزر جانے کے بعد قبر مسجد میں داخل کی گئی، تو کیا اس مدت میں مسجد نبوی اپنے حق میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ فضیلت سے محروم رہی؟ یا قبر کے مسجد کا حصہ بننے سے ۷۸ برس پیشتر ہی اس کی فضیلت اس کو منتقل ہو گئی؟
مزید یہ کہ مسجد عبادت گاہ ہے ، جب کہ قبر کو عبادت گاہ بنانا اللہ و رسول کی لعنت کا باعث ہے ، ایسی صورت میں اللہ کی عبادت کے لیے خاص جگہ کا تقدس و فضل ایسی چیز کا نتیجہ کیونکر ہوسکتا ہے جس شرک کے اسباب و ذرائع میں ہمیشہ سر فہرست رہی ہے؟
زیارت قبور کے بارے میں عموماً اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے بارے میں خصوصاً ، نیز انبیاء اور صالحین کی قبروں کو زیارت گاہوں، عبادت گاہوں اور جشن