کتاب: روشنی - صفحہ 115
الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ ﴾ (البقرہ: ۱۴۳) ’’ہم نے اس کو جس پر تم تھے صرف اس لیے قبلہ بنایا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اُلٹے پاؤں پھر جانے والوں میں شامل ہوجاتا ہے۔‘‘ یہ آیت مبارکہ بیت المقدس کو قبلہ بنائے جانے کی جو حکمت بیان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نسلی غرور میں مبتلا لوگوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنے والوں کے درمیان خط فاصل کھینچنا چاہتا تھا۔ چنانچہ ہوا بھی یہی کہ مسلمان ہونے والوں میں جو لوگ اپنے دلوں کو نسلی غرور اور بیت اللہ کی مجاوری کے نشے سے پاک نہیں کرسکے تھے، وہ بیت المقدس کو قبلہ قرار دیے جانے کا حکم سن کر مرتد ہو گئے جس کی تفصیل اگرچہ قرآن و حدیث میں بیان نہیں کی گئی ہے ، مگر یہ آیت مبارکہ اس پر دلالت کررہی ہے۔ معلوم ہوا کہ مسجد اقصیٰ کو اس وجہ سے قبلہ نہیں قرار دیا گیا کہ سلیمانJ نے اس کی تعمیر کی تھی، جیسا کہ صوفی امداد اللہ کا دعویٰ ہے۔ ۳۔ حاجی صاحب فرماتے ہیں: ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی تو کیا یہ جائز نہ ہو گا کہ اس کی زیارت کے لیے لوگ اس کا رُخ کریں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ دنیا کے سارے مسلمانوں کے نزدیک مسجد نبوی کی زیارت کی نیت سے سفر نہ صرف جائز ہے، بلکہ باعث اجر و ثواب ہے، لہٰذا یہ سوال بے معنی ہے ، البتہ اس کے بعد کا فقرہ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شانِ عبودیت سے موصوف تھے اور شہرت کو ناپسندفرماتے تھے، لہٰذا آپ کی مسجد قبلہ نہ بنی۔‘‘ وہ ٹیپ کا بند ہے جس کی خاطر موصوف نے اپنی بات کا آغاز ایک غیر مختلف فیہ بلکہ باعث اجر و ثواب عمل کے ذکر سے کیا اور وہ بھی سوالیہ انداز میں ، تاکہ لوگوں کی نظر اس قول کی سنگینی اور نکارت کی طرف نہ جائے، ورنہ حاجی صاحب نے مسجد نبوی کے قبلہ نہ بنائے جانے کی جو علت یا سبب بیان کیا ہے وہ فریب دہی کے سوا کچھ نہیں ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مسلمانوں کے لیے اُسوۂ حسنہ اور نمونہ تقلید ہونے کی وجہ سے آپ کی سیرت پاک کے ہرہر