کتاب: روشنی - صفحہ 114
ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر سے قبل جب وہاں اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل علیہما السلام کو لا کر چھوڑا تھا تو اللہ تعالیٰ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
﴿ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ ﴾ (ابراہیم: ۳۷)
’’اے ہمارے پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے، اے ہمارے پروردگار! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔‘‘
یہ آیت مبارکہ اس امر میں بالکل صریح ہے کہ بیت اللہ درحقیقت اس جگہ مقام اور حدود اربعہ کا نام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی عمارت قائم کی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کعبہ کے بانی اوّل ابراہیم علیہ السلام ہیں، لیکن یہ محض دعویٰ ہے کہ بیت اللہ کو قبلہ و کعبہ ہونے کا شرف اس وجہ سے حاصل ہو ا، کیونکہ ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تعمیر کی۔
یہاں اس امر کا ذکر فائدہ سے خالی نہیں کہ جس طرح اس زمین پر بیت اللہ ہے ٹھیک اسی طرح ساتویں آسمان پر ایک گھر ہے جو فرشتوں کی عبادت کے لیے مخصوص ہے اور اس کا نام ’’البیت المعمور‘‘ ہے۔ اس کا ذکر قرآن پاک کی سورۃ الطور کی چوتھی آیت اور حدیث معراج (بخاری: ۳۲۰۷۔ مسلم: ۴۱۶) میں آیا ہے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ’’البیت المعمور‘‘ زمین کے ’’ بیت اللہ ‘‘ کے اوپر بالکل سیدھ میں اور بالمقابل ساتویں آسمان پر ہے۔ [1]
اسی طرح بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ کو قبلہ بنائے جانے کی جو علت حاجی امداد اللہ نے بیان کی ہے وہ بھی صریح جھوٹ ہے اور خود قرآن پاک کی تصریح کے خلاف ہے، ارشادِ الٰہی ہے:
﴿ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ
[1] تفسیر ابن کثیر، ص: ۳۸۹، ج: ۳۔ فتح الباری، ص: ۱۵۱۲، ج:۲.