کتاب: روشنی - صفحہ 113
’’قبر مبارک کی زیارت کے لیے سفر اگر شریعت میں فرض نہ ہو تو عشق و محبت کی شریعت میں فرض ہے۔ سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر کی تو وہ قبلہ بن گیا، اور ابراہیم علیہ السلام نے مسجد حرام کی تعمیر کی تو وہ بھی قبلہ بن گئی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی تو کیا یہ جائز نہ ہو گا کہ اس کی زیارت کے لیے لوگ اس کا رُخ کریں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم شانِ عبودیت سے موصوف تھے اور شہرت کو ناپسند فرماتے تھے، لہٰذا آپ کی مسجد قبلہ نہ بنی…!!‘‘ مزید فرمایا: ’’مسجد نبوی کی فضیلت قبر مبارک کی وجہ سے ہے۔‘‘ ان چند سطروں میں حاجی صاحب نے اپنا مبلغ علم اور صوفیانہ ذہنیت دونوں کوبے نقاب کر دیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے: ۱۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کی سیرت پاک کے ذریعہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے جو مجموعۂ کلام ہمیں دیا ہے وہی اسلام اور وہی اسلامی شریعت ہے جس کے سوا اللہ کی کوئی اور شریعت نہیں ہے جس پر چل کر یا جس کے احکام کی پیروی کر کے کوئی اللہ کا مقبول بندہ بن سکے۔ رہی عشق و محبت کی شریعت تو صوفیا کے حلقوں میں اس کی جتنی بھی اہمیت ہو اللہ و رسول کی نگاہ میں وہ مردود ہے ،کیونکہ اس کا ماخذ کتاب و سنت نہیں، بلکہ اربابِ تصوف کا ذوق و وجدان ، عیسائی راہبوں ، ہندو سادھوؤں اور بدہ بھکشوؤں کا خود ساختہ فلسفۂ ریاضت ہے۔ ۲۔ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے قبلہ بنائے جانے کی علت یہ نہیں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے ان کی تعمیر کی تھی، جہاں تک مسجد حرام کے قبلہ ہونے کا تعلق ہے تو وہ ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر ہونے سے قبل بھی قبلہ ، بیت اللہ اور عبادت گاہ تھی، دراصل بیت اللہ عمارت کا نام نہیں، بلکہ اس جگہ کا نام ہے جہاں اس کی عمارت قائم ہے اور جگہ کی نسبت سے عمارت بھی بیت اللہ ، مسجد حرام او رکعبہ ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ