کتاب: روشنی - صفحہ 112
حدیث (( لَا تَشُدُّ الرِّحَالُ …)) سے مساجد ثلاثہ کے سوا اور کسی مسجد کی زیارت کی نیت سے سفر کے عدم جواز، یا کسی بھی مخصوص جگہ یا مقام پر بفرض عبادت یا تقرب الٰہی سفر کے ناجائز ہونے پر استدلال سو فیصد درست ہے، جس سے قبر مبارک کی زیارت یا قبور صالحین کی زیارت کی نیت سے سفر کے عدم جواز کا حکم سمجھا جا سکتا ہے ، کیونکہ مخصوص طور پر تین مسجدوں میں نمازو کے مخصوص اجر و ثواب کو بیان کر کے اور ان کے سوا کسی بھی مسجد میں نماز پڑھنے کی نیت سے سفر کو ممنوع قرار دے کر ایسے کسی بھی سفر کو غیر شرعی قرار دے دیا گیا ہے جس کا مقصد عبادت ہو اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیار ت کو ہم نیکی اور افضل ترین عبادت قرار دینے والوں نے خود اس سفر کو ’’ تعبدی عمل‘‘ قرار دے دیا ہے، لہٰذا خود ان کے اصول سے بھی یہ سفر ممنوع ٹھہرا، اس لیے کہ کسی بھی ’’ تعبدی عمل‘‘ یا ایسے عمل کا منصوص ہونا ضروری ہے جو عبادت کے قبیل سے ہو، اور یہ شرعی اصول متفق علیہ ہے۔ اب رہا والدین یا کسی دوسرے رشتہ داروں کی زیارت یا طلب علم یا حصولِ رزق کی غرض یا نیت سے سفر تو اگرچہ یہ سفر دینی ہے ، مگر عبادت کے قبیل سے نہ ہونے کی وجہ سے حدیث ((لَا تَشُدُّ الرِّحَالُ …)) کے عمومی حکم سے خارج بھی ہے اور ان میں سے ہر سفر منصوص ہونے کی وجہ سے جائز بھی ہے، بلکہ باعث اجر و ثواب ہے۔ حاجی امداد اللہ نے اگر مساجد ثلاثہ کے علاوہ دوسری مسجدوں کی زیارت کے لیے سفر سے والدین کی زیارت اور طلب علم کے لیے سفر کو تشبیہ دے کر مغالطہ دیا ہے تو ان کے عالم دین نہ ہونے کی وجہ سے یہ باعث تعجب نہیں ہے ، لیکن ڈاکٹر محمد سعید رمضان بوطی تو عالم دین اور زبان داں دونوں ہیں، انہوں نے کیوں یہ بچگانہ استدلال کر کے اپنا وزن گھٹا لیا؟!! میں نے اوپر لکھا ہے کہ اگر قبر مبارک کے کعبہ سے افضل ہونے کا دعویٰ صحیح ہے تو اس کا تقاضا تھا کہ قبر مبارک اور مسجد میں اس کے شامل ہو جانے کے بعد قبلۃ المسلمین مسجد نبوی ہوتی نہ کہ کعبہ مشرفہ، مگر ایسا نہیں ہے ، اتفاق سے حاجی امداد اللہ نے اپنے ایک ارشاد میں اس کی بڑی دلچسپ توجیہ کی ہے ، فرماتے ہیں: