کتاب: روشنی - صفحہ 111
جائے یا دُور سے۔
ڈاکٹر بوطی نے سفر کے موقع پر قبر مبارک اور مسجد نبوی دونوں کی زیارت کی نیت کو جمہور علمائے سلف کا مذہب قرار دے کر اور اس نیت سے سفر کو بدعت قرار دینے میں ابن تیمیہ کے منفرد ہونے کا دعویٰ کر کے فریب دینے کی جو سعی لا حاصل کی ہے وہ حد درجہ مذموم صفت اور حرکت ہے۔
دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی دو شکلیں ہیں:
۱۔ مسجد نبوی میں نماز اد اکرنے کی نیت سے اس میں حاضری دینے والے قبر مبارک کی بھی اس اعتقاد سے زیارت کر لیں کہ زیارت قبور سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ مبارکہ کے عمومی حکم میں یہ زیارت بھی داخل ہے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح حدیث پر مبنی نہ ہونے کی وجہ سے اس کا کوئی خاص اجر و ثواب یا فضیلت نہیں ہے، تو اس زیارت کی مشروعیت کے قائل تمام علمائے سلف رہے ہیں، اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔
۲۔ قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر مدینہ، تو علمائے سلف اور ائمہ اربعہ اور ائمہ حدیث میں کوئی بھی اس سفر کے جواز کا قائل نہیں رہا ہے۔ ڈاکٹربوطی اوران کے ہم مشرب بعض صوفیا نے (سبکی ، دحلان، خلیل احمد اور حاجی امداد اللہ) اس کے جمہور علمائے سلف کا مذہب ہونے کا جو دعویٰ کیا ہے، وہ بے بنیاد اور جھوٹ ہے، صرف حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ جب وہ باہر سے مدینہ واپس آتے تو پہلے مسجد نبوی میں جا کر دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھتے، پھر قبر مبارک کے پاس جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے، اس کے بعد حضرت ابوبکر، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کے پاس جا کر ان کو سلام کر کے چلے جاتے۔ چونکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مدینہ ہی میں سکونت پذیر تھے، اس لیے ان کے اس عمل پر قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔[1]
[1] ملاحظہ ہو: مؤطا امام مالک بروایت محمد بن حسن، حدیث: ۹۴۷ و بروایت یحییٰ بن یحیی لیثی ، حدیث: ۶۸، و فضل الصلاۃ ، حدیث نمبر: ۹۸، ۹۹، ۱۰۰.