کتاب: روشنی - صفحہ 110
اس وجہ سے بدعتی اور مخالف سنت ہونے کا بکثرت الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم جمہور علمائے سلف کی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ سفر مدینہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اور مسجد دونوں کی زیارت کی نیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ ((لَا تَشُدُّ الرِّحَالُ …)) کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے قبروں کی زیارت کے لیے سفر کو ممنوع قرار دے کر عجیب طرح کی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں، کیونکہ اس استدلال سے یہ لازم آتا ہے کہ کوئی شخص صلہ رحمی، طلب علم یا حصولِ رزق کے لیے بھی سفر نہیں کر سکتا۔‘‘ [1] ڈاکٹر بوطی کو یہ بات معلوم ہو گی کہ امام ابن تیمیہ اور دوسرے تمام علمائے سلف نے اگر سفر مدینہ کے موقع پر صرف مسجد نبوی کی زیارت کی نیت کرنے کو درست قرار دیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کی نیت سے سفر کو غیر مشروع اور بدعت قرار دیا ہے، قطع نظر اس کے کہ یہ نیت مسجد نبوی کی زیارت کی نیت کے ساتھ کی جائے یا مستقلاً کی جائے تو ان کے ایسا کرنے کا سبب یہ ہے کہ مسجد نبوی کی زیارت کی نیت سے سفر منصوص ہے بایں معنی کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے، نیز اس میں ادا کی جانے والی ایک نماز مسجد حرام کے سوا دنیا کی دوسری مسجدوں کی ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک نہ تو ان تین مسجدوں میں شامل ہے جن میں نماز ادا کرنے کی غرض سے سفر کو جائز قرار دیا گیا ہے ، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زیارت کا کوئی اجر و ثواب بیان فرمایا ہے اور نہ شرعاً اس زیارت کے لیے سفر کی کوئی ضرورت ہے ، کیونکہ جو لوگ اس زیارت کے قائل ہیں وہ اس کی مشروعیت کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کرنا بتاتے ہیں، اگر ان کی یہ بات صحیح ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پڑھنے یا پیش کرنے کے لیے سفر مدینہ تحصیل حاصل ہے ، اس لیے کہ یہ سلام دنیا کے کسی بھی حصے میں پڑھا جا سکتا ہے، جس کو مخصوص فرشتوں کے ذریعہ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا ہے، آپ بذاتِ خود اور اپنے کانوں سے اسے نہیں سنتے، چاہے یہ سلام قریب سے کیا
[1] ص: ۲۳۹، ۲۴۰.