کتاب: روشنی - صفحہ 11
اس حدیث میں ’’مبشرات النبوۃ‘‘ فرما کر پہلی حدیث میں مذکور المبشرات کا ابہام دُور کر دیا گیا ہے اور یہ واضح فرما دیا گیا کہ سلسلۂ نبوت و رسالت تو ختم ہو گیا ، البتہ جس طرح اللہ تعالیٰ نبوت کے ذریعہ بعض غیبی یا مخفی اُمور پر سے پردہ ہٹادیا کرتا تھا، اسی طرح سچے اور عمدہ خواب کے ذریعے بھی اپنے مومن و مسلم بندوں کو بعض غیبی یا مخفی اُمور سے مطلع فرما کر ان کے لیے خوشی اور مسرت کا سامان کرتا رہے گا۔
حدیث میں ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عمدہ خواب نبوت کا ایک حصہ ہے ، کل نبوت نہیں ہے ، چنانچہ بعض حدیثوں میں اس کو بصراحت نبوت کا ۴۵ واں یا ۴۶ واں حصہ قرار دیا گیا ہے جن میں سے ۴۶ ویں حصے کو صحیح بخاری میں مروی ہونے کی وجہ سے ترجیح حاصل ہے۔ [1]
عمدہ یا سچے خواب کے نبوت کا ایک حصہ ہونے پر دلالت کرنے والی حدیثوں سے سلسلۂ نبوت کے باقی رہنے پر استدلال کرنے والوں کا منہ بند کرنے کے لیے عرض ہے کہ کسی بھی چیز کا کوئی حصہ اس چیز کے وجود پر دلالت نہیں کرتا۔ مثلاً: تکبیر تحریمہ ، قیام ، قراء ت فاتحہ ، رکوع اور سجود وغیرہ نماز کے ضروری اور لازمی اجزاء ہیں جن کے مجموعے سے نماز کو وجود ملتا ہے ، مگر ان سے کوئی بھی عمل تنہا نماز نہیں ہے۔
اس مسئلہ میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی حدیثیں مروی ہیں اور جتنی سندوں سے مروی ہیں ان سب میں عمدہ یا سچے خواب کو ’’ نبوت ‘‘ کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے۔ کسی بھی حدیث میں ’’نبوت‘‘ کے بجائے ’’ رسالت‘‘ کالفظ نہیں آیا ہے جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اگر خواب دیکھنے والے کو خواب میں کسی ایسی بات پر عمل کا حکم دیا جائے جو کتاب و سنت سے ثابت عمل کے خلاف ہو یا جس کا ذکر قرآن و حدیث میں نہ آیا ہو تو اس پر عمل کرنا خود خواب دیکھنے والے اور اس کے علاوہ کسی بھی شخص کے حق میں حرام ہے، اس لیے کہ دین مکمل ہو چکا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور وحی الٰہی کے نزول کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔
[1] بخاری: ۶۹۸۲۔ مسلم: ۲۲۶۴۔ ابوداؤد: ۵۰۱۷۔ ترمذی: ۲۲۷۲.