کتاب: روشنی - صفحہ 108
لہٰذا یہ روایت ان لوگوں کے مفاد اور حق میں نہیں ہے جو قبر مبارک کی زیارت کے لیے سفر کو نہ صرف جائز کہتے ہیں، بلکہ سفر مدینہ کے موقع پر ’’صرف قبر مبارک کی زیارت کی نیت ہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کا ترجمان مانتے ہیں۔البتہ مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی کی زیارت کی نیت کر لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ اس طرح جو عمل غیر مشروع تھا وہ مطلوب اور تقرب الٰہی کا ذریعہ قرار پایا اور زبانِ نبوت نے جس عمل کے اجر و ثواب کو بیان کر کے شریعت میں اس کا ایک اعتبار قائم کر دیا تھا اس کو ایسے جائز اور مباح سے بدل دیا گیا جو شارع علیہ السلام کی نظر میں ممنوع، مگر شریعت ساز صوفیا کی نظروں میں مطلوب کے تابع ہو گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ مبارک: ((لا تشد الرحال…)) کی ایسی ایسی تاویلیں کی گئیں کہ وہ بے معنی ہو کر رہ گیا اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بے چون و چرا عمل کرنے والے اور اس کی دعوت دینے والے ’’وہابی‘‘ اور اس کی غلط تاویل کرنے والے اور اس سے بالکل اُلٹا نتیجہ اخذ کرنے والے اہل سنت و جماعت قرار پائے۔
گزشتہ صفحات میں مذکورہ حدیث سے غلط استدلال کرنے والے مولانا فضل احمد کے دعوؤں کے ہر ہر پہلو کا تفصیل سے جائزہ لیا جا چکا ہے اور یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ مساجد ثلاثہ کی فضیلت منصوص ہے جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے اس حصے کے ، جو جسم اطہر مبارک کو چھو رہا ہے ، کعبہ اور عرش و کرسی سے افضل ہونے کا دعویٰ بیماری ذہنیت کا غماز ہے، پھر اس دعوے کے سنگین نتائج بھی ایک ایک کر کے بیان کیے جا چکے ہیں۔
ذیل میں ہم حدیث ((لا تشد الرحال…)) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت کے جواز، بلکہ وجوب پر انوکھے اور عجیب استدلال کا ایک نمونہ پیش کریں گے جس سے قارئین کو جہاں قبروں کو زیارت گاہیں اور عبادت گاہیں بنانے والوں کے مبلغ علم کا اندازہ ہو سکے گا وہیں ان کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ قبوری شریعت پر عمل کرنے والے اسلام کی توحیدی تعلیمات کو کس زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں:
۱۔ شام کے ایک معروف عالم اور مصنف ڈاکٹر محمد سعید رمضان بوطی کا شمار شیخ الاسلام