کتاب: روشنی - صفحہ 107
منفرد ہے جس کی شہرت اس زیر بحث روایت اور ایک ایسی موضوع اور جھوٹی روایت بیان کرنے سے ہے جس میں حجامت کا ذکر ہے۔ اس راوی کا نام مسلمہ بن سالم جہنی ہے، اس کے علاوہ اس کا کوئی حال نہیں بیان ہوا ہے، اس کا ذکر مسلم اور مسلمہ دونوں ناموں سے ملتا ہے۔ [1]
اور مسلمہ سے اس حدیث کی روایت کرنے والا عبداللہ بن محمد عبادی ہے جس کا ذکر صرف ابوبکر محمد بن ابی مظفر سمعانی نے اپنی کتاب ’’الانساب، ص: ۳۳۸، ج:۳‘‘ اور ’’الاکمال ، ص: ۳۴۵، ج:۶‘‘ میں کیا ہے، لیکن اس کی جرح و تعدیل کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے، لہٰذا یہ مجہول الحال ہے۔
مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے ناقابل استدلال ہے، اس کے دونوں بنیادی راویوں کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے میں نے اس کو صرف ضعیف کہنے پر اکتفا کیا ہے، ورنہ حق یہ ہے کہ اپنے متن کے اعتبار سے یہ منکر ہے۔
اوپر جو کچھ عرض کیا گیا وہ زیر بحث روایت کی سند سے متعلق تھا ، رہا اس کا مضمون تو وہ ان لوگوں کے دعویٰ کی دلیل نہیں بن سکتا جو قبر مبارک کی زیارت کے لیے سفر کو مشروع قرار دیتے ہیں، کیونکہ اس روایت میں قبر کی زیارت کا دُور سے بھی کوئی ذکر نہیں ہے ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’میری زیارت‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے اور آغازمضمون میں یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ کسی شخص کی قبر کی زیارت کو اس شخص کی زیارت سے تعبیر کرنا درست نہیں جس طرح کسی شخص کی زیارت کو اس شخص کی قبر کی زیارت نہیں کہا جا سکتا۔لہٰذااس روایت میں اس کے غیر ثابت ہونے سے قطع نظر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب فقروں: ’’جو میری زیارت کی غرض سے آئے گا‘‘اور ’’میری زیارت کے سوا اس کی کوئی اور غرض نہ ہو گی‘‘ سے آپ کی حیاتِ پاک میں آپ سے ملاقات کے سوا کوئی اور مفہوم مراد لینا صحیح نہیں ہو سکتا۔ دوسرے لفظوں میں ’’میری زیارت‘‘ کی تعبیر سے ’’میری قبر کی زیارت‘‘ مراد نہیں لی جا سکتی۔
[1] میزان الاعتدال، ص: ۴۱۵، ج: ۶، ترجمہ: ۸۴۹۴۔ الجرح والتعدیل، ص: ۳۰۸، ج:۸، ترجمہ: ۱۴۵۳۸۔ تقریب التہذیب ، ص: ۴۶۲، ترجمہ: ۶۶۲۷.