کتاب: روشنی - صفحہ 106
کے اقوال سے استدلال کرنے کے بجائے اپنے جیسے صوفی علماء کے اقوال سے استدلال کرتے ہیں۔ گزشتہ صفحات میں عام قبروں کی زیارت اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت، نیز انبیاء، اولیاء اور صالحین کی قبروں کو زیارت گاہوں اور عبادت گاہوں میں تبدیل کرنے اور ان پر مسجدیں تعمیر کرنے سے متعلق کتاب و سنت کی روشنی میں اسلام کا جو نقطۂ نظر جذبات سے دُور رہ کر خالص دلائل کی زبان میں بیان کیا گیا ہے، اس سے اتنی بات تو واضح ہو گئی ہو گی کہ قبر مبارک کی زیارت کی مشروعیت اُن احادیث سے ماخوذ ہے جن میں کسی تخصیص کے بغیر قبروں کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے اور جس طرح عام قبروں کی زیارت کی علت موت و آخرت کی یاد کو تازہ رکھنا ہے اسی طرح قبر مبارک کی زیارت کی علت بھی یہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور توقیر اس کی علت نہیں ہے، کیونکہ یہ تعظیم و توقیر اس کی علت اس وقت ہوتی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان کیا ہوتا ، جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ کسی ایک بھی صحیح یا حسن حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر مبارک کی زیارت کی ترغیب دی ہے اور نہ اس کو اپنی تعظیم و توقیر قرار دیا ہے، بلکہ اس باب میں تمام تر روایات بے حد ضعیف ، منکر اور موضوع ہیں، انہی میں سے درج ذیل روایت بھی ہے: ((من جاء نی زائرا لا یعملہ حاجۃ إلا زیارتی کان حقا علی أن اکون لہ شفیعا یوم القیامۃ۔)) ’’جو میری زیارت کی غرض سے میرے پاس آئے گا میری زیارت کے سوا اس کی کوئی اور غرض نہ ہو گی تو میرے اوپر یہ واجب ہو جائے گا کہ قیامت کے روز میں اس کا شفیع بنوں۔‘‘ یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے اگرچہ صرف ضعیف ہے، لیکن صحیحین، سنن اربعہ اور مسند امام احمد میں منقول نہ ہونے اور ان ائمہ حدیث کے ذریعہ روایت نہ ہونے کی وجہ سے ساقط الاعتبار ہے، جن کی روایات سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ مزید یہ کہ اس کی روایت میں ایک ایسا راوی