کتاب: روشنی - صفحہ 105
ہی کی رو سے اس میں ادا کی جانے والی ایک نماز مسجد حرام کے سوا دنیا کی دوسری مسجدوں میں ادا کی جانے والی ایک ہزار نمازوں اور مسجد اقصیٰ کی دو نمازوں سے افضل ہے۔[1] مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کی رو سے مسجد نبوی کی زیارت عبادت ہے اور عبادت کی صحت نیت کی محتاج ہے، لہٰذا سفر ہی کے وقت مسجد نبوی کی زیارت کی نیت کرنا واجب قرار پایا۔ بایں معنی کہ اس نیت کے بغیر یہ زیارت ناقابل قبول ہے، ایسی صورت میں محض مدینہ منورہ پہنچ جانے پر یہ زیارت آپ سے آپ کس طرح ہو جائے گی؟ رہی قبر مبارک کی زیارت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں مذکور نہ ہونے کی وجہ سے شرعاً مطلوب بھی نہیں ہے، بلکہ زیارت قبور کے عمومی حکم میں داخل ہونے کی وجہ سے صرف جائز ہے اور یہ بھی ان لوگوں کے حق میں جو مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی نیت سے مدینہ کا سفر کریں۔ اس وضاحت کی روشنی میں سفر مدینہ کے وقت قبر مبارک کی زیارت کی نیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کس طرح قرار پائی؟ یہ تعظیم و توقیر تو اس وقت ہوتی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً نہ سہی اشارتًا ہی اس کا حکم دیا ہوتا، نیز یہ حقیقت بار بار واضح کی جا چکی ہے کہ زیارت قبور کی مسروعیت کی علت اصحاب قبور کی تعظیم و توقیر سرے سے ہے ہی نہیں، بلکہ صرف موت و آخرت کی یاددہانی ہے اور چونکہ موت و آخرت کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے ہر جگہ موجود قبروں کی زیارت یا کسی بھی شہر خموشاں کے پاس سے گزر جانا کافی ہے، لہٰذا کسی بھی قبر کی زیارت کی نیت سے سفر اسی سبب سے ناجائز ہے جس سبب سے مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے سوا کسی بھی مسجد میں نماز پڑھنے کی نیت سے سفر ناجائز ہے، کیونکہ شریعت کی نگاہ میں یہ ایک فعل عبث ہے اور فعل عبث کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ۔ صوفیا دراصل لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے واقعات سے اگر وہ ثابت ہوں ایسے احکام مستنبط کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اُن واقعات سے نہیں نکلتے اور اگر وہ واقعات ثابت نہ ہوں تو ان کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ائمہ حدیث
[1] فتح الباری، ص: ۷۸۲، ج:۱.