کتاب: روشنی - صفحہ 104
میں مشرکانہ اعمال کے ارتکاب سے روکنے والوں کا ہر وقت وجود نہ رہتا تو کیا قبر مبارک کے پاس ان مشرکانہ اعمال کا ارتکاب نہ ہوتا جو دنیا کے دوسرے مزاروں میں ہوتے ہیں؟ رہا قبر مبارک کے گرد طواف تو یہ مسجد نبوی میں قبر مبارک کے پاس شدید حفاظتی انتظامات کی وجہ سے نمایاں شکل میں ممکن نہیں ہے، تاہم زائرین میں ایسے لوگوں کا وجود ہوتا ہے جو قبر مبارک کے گرد طواف کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا طواف نہ کر پانے پر حسرت کے ساتھ وہاں سے واپس جاتے ہیں۔ زیر بحث موضوع کی وضاحت کے ضمن میں اس امر کی جانب اشارہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس اُمت سے نسبت کرنے والوں ،نیز یہود و نصاریٰ سے تعلق رکھنے والے جن نام نہاد عابدوں اور زاہدوں نے انبیاء ، اولیاء اللہ اور صالحین کو کسی نہ کسی شکل میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور ربوبیت میں شریک بنایا اور ان کے مرنے کے بعد ان کی قبروں کو زیارت گاہوں اور عبادت گاہوں میں تبدیل کیا ، انہوں نے بھی ان انبیاء، اولیاء اور صالحین کی تعظیم و تقدیس ہی کے جذبے سے ایسا کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کے مستحق قرار پائے، لہٰذا سفر مدینہ کے موقع پر قبر مبارک کی نیت کی تلقین کرنے والوں کو اس بات پر تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ ’’سفر کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کی نیت کو خالص کر لے اور جب زائر وہاں پہنچے گا تو مسجد نبوی کی آپ سے آپ زیارت ہو جائے گی، کیونکہ ایسا کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ تعظیم و توقیر ہے۔‘‘[1] غور فرمایئے کہ کس جرأت اور ڈھٹائی سے سفر مدینہ کے موقع پر مسجد نبوی کی زیارت کو نیت سے خارج کر دیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی من گھڑت تعظیم و توقیر کے نام پر قبر شریف کی زیارت کے لیے نیت خالص کر لینے کا حکم دے دیا گیا، جب کہ یہ بات معلوم و معروف ہے اور اوپر اس کا تذکرہ بھی ہو چکا ہے کہ حدیث نبوی کے مطابق مسجد نبوی ان تین مسجدوں میں سے ایک ہے جن کی زیارت اور ان میں نماز پڑھنے کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے اور حدیث
[1] المہند، ص: ۳۶.