کتاب: روشنی - صفحہ 103
۳۔ کعبہ دنیا کے تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا صحت نماز کی بنیادی شرط ہے۔ اب اگر قبر مبارک کا وہ حصہ جس کو جسم اطہر چھورہا ہے ، کعبہ سے افضل ہے ، تو اس کی اس افضلیت کا تقاضا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قبلۂ عالم ہونے کا شرف کعبہ سے قبر مبارک کو منتقل ہو گیا۔ اس تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد سے کسی مسلمان کی نماز صحیح نہیں ہو رہی ہے؟!! ۴۔ کعبہ مشرفہ کا طواف عمرہ اور حج کا رکن ہے اور عمرہ اور حج کے بغیر بھی یہ طواف اپنی خاص فضیلت رکھتا ہے، لیکن قبر مبارک کے کعبہ سے افضل اور اشرف ہونے کے نتیجے میں یہ طواف کعبہ مشرفہ کے بجائے قبر مبارک کا ہونا چاہیے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اگرچہ قبر مبارک کعبہ سے افضل ہے ، لیکن اس کے قبلۃ المسلمین اور مطاف ہونے کا مسئلہ منصوص ہونے کی وجہ سے قبر مبارک کی افضلیت مطلقہ کے حکم اور تقاضے سے مستثنیٰ اور خارج ہے تو اس کے ردّ میں ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ حدیث میں مساجد ثلاثہ… مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ … کے سوا کسی اور مسجد میں نماز اد اکرنے یا کوئی اور عبادت کرنے کی نیت سے سفر کے ناجائز ہونے کی وجہ سے قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا بھی ناجائز ہے اور جس طرح کعبہ کو قبلہ بنانے اور صرف اسی کے گرد طواف کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے تقدس اور صاحب قبر فداہ ابی و اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر سے متعلق ہمارا عقیدہ متاثر نہیں ہوتا، اسی طرح قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر مدینہ کو ناجائز قرار دینے سے بھی ہمارا جذبۂ تعظیم و توقیر پر کوئی حرف نہیں آتا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم آپ کی اطاعت و پیروی میں مضمر ہے۔ آپ کے احکام کی مخالفت اور دین میں نئی باتیں پیدا کرنے میں نہیں۔ معلوم رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر و تقدیس کے جذبے ہی سے اس دین سے نسبت کا دعویٰ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو مسجد نبوی میں نماز اد اکرتے وقت ایسی جگہ کا انتخاب کرتی ہے کہ اس کے اور قبلہ کے درمیان قبر مبارک حائل ہو ، اور اگر مسجد نبوی