کتاب: روشنی - صفحہ 102
اگر قرآن و حدیث کی دلیل سے عاری ہے تو باطل اور مردود ہے ، کیونکہ مولانا تھانوی کے مرید کے بقول’’باب فضائل امکنہ و ازمنہ قیاس نہیں، بلکہ توقیفی ہے جس میں اجتہاد اور رائے کو دخل نہیں۔‘‘ پھر بھی تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو مطلق افضلیت حاصل ہے اور وہ کعبہ اور عرش و کرسی سے افضل ہے ، لیکن اس افضلیت سے حاصل ہونے والے نتائج کو کیا کریں گے ، کیا ان کو بھی قبول کر لیں گے؟ وہ نتائج درج ذیل ہیں: ۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے جو فضائل بیان فرمائے تھے اس وقت قبر مبارک موجود نہیں تھی ، کیونکہ آپ بقید حیات تھے، ایسی صورت میں ان تینوں مسجدوں کی فضیلت قبر مبارک کو کس طرح حاصل ہو گئی اور وہ بھی زیادتی کے ساتھ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی نزولِ وحی کا سلسلہ جاری رہا؟!! ۲۔ حدیث میں مذکور تینوں مسجدوں میں پہلا درجہ مسجد حرام کو حاصل ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ فضیلت اور درجہ پہلے قبر مبارک کو حاصل ہوا، پھر آپ کی وفات پر ۷۸ برس گزر جانے کے بعد جب قبر مبارک مسجد نبوی میں شامل ہوئی تو اس کی یہ فضیلت یا افضلیت مطلقہ قبر مبارک کو منتقل ہو گئی، مولانا خلیل نے اگرچہ اس کا دعویٰ نہیں کیا ہے ، لیکن چونکہ تمام علمائے دیو بند کے متفق علیہ پیرو مرشد، بلکہ مرشد العرب والعجم حاجی امداد اللہ کا یہی عقیدہ تھا کہ مسجد نبوی کو جو فضیلت حاصل ہے وہ قبر مبارک کی وجہ سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد میں پڑھی جانے والی نمازوں کا جو اجر و ثواب بیان فرمایا ہے وہ قبر مبارک کے مسجد میں شامل ہونے تک معلق رہا اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور تابعین کی ایک بڑی تعداد اس اجر و ثواب سے محروم رہی اور ان کے بعد بھی محرومین کا یہ سلسلہ جاری ہے اور صرف وہی لوگ اس اجر و ثواب سے سرفراز ہو رہے ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ مسجد نبوی کی فضیلت قبر مبارک کی وجہ سے ہے!