کتاب: روشنی - صفحہ 101
اور کشف و الہام کے ماخذ شریعت نہ ہونے پر علمائے اُمت کا اتفاق ہے۔
اب آیئے! ایک بار پھر اُن دعوؤں پر ایک نظر ڈالتے چلیں جو حاجی امداد اللہ اور مولانا خلیل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی افضلیت مطلقہ سے متعلق کیے ہیں۔ حاجی امداد اللہ صاحب نے تو قبر مبارک کو صرف عرش سے افضل قرار دیا ہے، جیسا کہ ان کی کتاب ’’ثلج الصدور‘‘ کے حوالہ سے مولانا تھانوی کے مرید نے بیان کیا ہے ، لیکن مولانا خلیل نے جو خیر سے نہ صرف محدث گزرے ہیں، بلکہ اپنے حلقے میں فخر المحدثین کے لقب سے پکارے جاتے تھے، قبر مبارک کو کعبہ مشرفہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل بتایا ہے، اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’مساجد ثلاثہ کی فضیلت کی جو علت ان کو دیگر مسجدوں اور مقامات سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے وہ فضیلت زیادتی کے ساتھ ’’بقعۂ شریفہ‘‘ میں موجود ہے۔
مولانا خلیل کے مذکورہ قول کا مطلب ہے کہ’’ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کو دنیا کی تمام دوسری مسجدوں پر جو امتیازی فضیلت حاصل ہے وہ اضافے کے ساتھ قبر مبارک کو حاصل ہے۔‘‘ اس اضافۂ فضیلت سے ان کی مراد وہ مزعومہ فضیلت ہے جو قبر مبارک کو کعبہ مشرفہ، اور عرش و کرسی پر حاصل ہے۔‘‘
قبرمبارک کی مذکورہ بالا افضلیت مطلقہ کے محض ایک دعویٰ ہونے سے قطع نظر عرض ہے کہ مساجد ثلاثہ کے فضائل ان میں ادا کی جانے والی نمازوں کے خصوصی اجر و ثواب کے اعتبار سے ہیں، کیونکہ وہ مسجدیں ہیں، لیکن قبر مبارک تو عبادت گاہ اور سجدہ گاہ نہیں ہے، پھر اس کی فضیلت کس اعتبار سے ہے؟ اور کس طرح تین مسجدوں کے فضائل زیادتی کے ساتھ اس کو حاصل ہو گئے، جب کہ اس کو سجدہ گاہ اور عبادت گاہ ماننے والا ملعون ہے!!
اب آیئے ان سنگین نتائج پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیں جو مذکورہ دعویٰ سے مترتب ہوتے ہیں:
قبر مبارک کی افضلیت مطلقہ کا دعویٰ محض دعویٰ ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ دین و شریعت اور فضائل و مناقب کے باب میں بڑے سے بڑا دعویٰ اور بڑے سے بڑے کا دعوی