کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 96
ذکر ایمان کی شاخوں والی حدیث میں ہوا ہے۔[1]
علامہ عبدالرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم کردہ تمام باتوں کو مان کر اور ظاہری و باطنی طور پر ان کی تابعداری کرکے اس کے مکمل اعتراف اور پختہ تصدیق کا نام ایمان ہے،چنانچہ ایمان دل کی تصدیق و اعتقاد کا نام ہے جو کہ قلب و قالب (جسم) کے تمام اعمال کو شامل ہے،اور یہ پورے دین اسلام کی انجام دہی کو شامل ہے،اسی لیے ائمہ کرام اور سلف صالحین کہا کرتے تھے کہ ایمان،دل و زبان کے قول اور دل،زبان اور اعضا و جوارح کے عمل کا نام ہے،یعنی ایمان قول،عمل اور عقیدہ کا نام ہے جو اطاعت گزاری سے بڑھتا اور معصیت کاری سے گھٹتا ہے،چنانچہ وہ ایمان کے جملہ عقائد،اخلاق اور اعمال کو شامل ہے۔‘‘ [2]
ثانیاً: ایمان اور اسلام کے درمیان فرق :....شریعت میں ایمان کی دو حالتیں ہیں :
پہلی حالت یہ ہے کہ اسلام کا ذکر نہ کرکے صرف ایمان کا ذکر کیا جائے،ایسی صورت میں ایمان سے پورا دین مراد ہوگا،جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ﴾ (البقرۃ:۲۵۷)
’’ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا ولی (سرپرست) ہے،وہ انھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔‘‘
سلف صالحین رحمہم اللہ اپنے قول ’’ ایمان: عقیدہ اور قول و عمل کا نام ہے،اور سارے
[1] دیکھئے: شرح العقیدۃ الطحاویۃ لابن ابی العز،ص: ۳۷۳۔معارج القبول شرح سلم الوصول الی علم الاصول في التوحید از شیخ حافظ الحکمی: ۲/ ۵۸۷۔۵۹۱۔اصول و ضوابط في التکفیر للعلامۃ عبداللطیف بن عبدالرحمن بن حسن آل الشیخ،ص: ۳۴۔نیز دیکھئے: کتاب الایمان لابن مندہ: ۱/ ۳۰۰۔۳۴۱۔
[2] التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان،ص: ۹۔نیز دیکھئے: کتاب الایمان لابن مندہ: ۱/ ۳۴۱،فتاویٰ ابن تیمیہ: ۷/ ۵۰۵۔