کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 63
کو شریک نہ کرے کیونکہ وہی تنہا عبادت کا مستحق ہے،اس کی ذات پاک ہے۔ پانچواں مطلب....شرک کے اسباب و وسائل: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی اُمت کو) ان تمام چیزوں سے ڈرایا ہے جو شرک تک پہنچاتی ہوں،یا اس میں واقع ہونے کا سبب ہوں،اور انھیں کھول کر واضح طور پر بیان بھی کردیا ہے،ان میں سے چند وسائل و ذرائع مختصراً درج ذیل ہیں : ۱۔صالحین کے بارے میں غلو: یہ اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کا ذریعہ ہے،چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اُتارے جانے کے بعد سے لوگ اسلام پر گامزن تھے،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : (( کَانَ بَیْنَ آدَمَ وَنُوْحٍ عَشَرَۃُ قُرُوْنٍ کُلُّہُمْ عَلَی الْاِسْلَامِ۔))[1] ’’ حضرت آدم اور نوح علیہما السلام کے درمیان دس صدیاں گزری ہیں،یہ سب کے سب اسلام (توحید) پر گامزن تھے۔‘‘ اس کے بعد لوگ نیک لوگوں سے تعلق قائم کرنے لگے اور آہستہ آہستہ زمین میں شرک پیدا ہوا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا،تاکہ وہ لوگوں کو اللہ واحد کی عبادت کی دعوت دیں اور غیر اللہ کی عبادت سے روکیں۔[2] حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے انھیں جواب دیتے ہوئے کہا: ﴿وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ﴾ [نوح:۲۳] ’’ اور انھوں نے کہا: اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور نہ ہی وُدّ،سواع،یغوث،
[1] مستدرک حاکم،کتاب التاریخ: ۲/ ۵۴۶،فرماتے ہیں : ’’ یہ حدیث امام بخاری کی شرط پر صحیح ہے،لیکن امام بخاری و مسلم نے اس کی تخریج نہیں کی ہے،اور امام ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے،اور امام ابن کثیر نے اسے البدایہ والنہایہ: ۱/ ۱۰۱ میں ذکر فرمایا ہے اور امام بخاری کی طرف منسوب کیا ہے۔دیکھئے: فتح الباری: ۶/ ۳۷۲۔ [2] دیکھئے: البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: ۱/ ۱۰۶۔