کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 50
جو آپس میں جھگڑنے اور اختلاف کرنے والی ایک جماعت کی ملکیت میں ہو،جو بداخلاق اور اس سے خدمت لینے کے اس قدر حریص ہوں کہ ان تمام لوگوں کو راضی کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہو،اور اس طور پر وہ ایک طرح کے عذاب اور مصیبت میں ہو۔ اور موحد چونکہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتا ہے،اس لیے اس کی مثال اس غلام کی سی ہے جو صرف ایک آقا کی ملکیت میں ہو،وہ صرف اسی کا ہو،اسے اس کے مقاصد کا علم ہو اور وہ اسے راضی کرنے کا گر سمجھتا ہو تو ایسا غلام شریکوں کے باہمی کشاکش اور اختلاف سے امن و سکون میں ہوتا ہے،بلکہ وہ خالص اپنے آقا کا ہوتا ہے جس میں کسی کا کوئی تنازعہ نہیں،ساتھ ہی اس کا مالک اس کے ساتھ رحم و کرم،شفقت اور حسن اخلاق سے پیش آتا ہے اور اس کی مصلحتوں کا خیال رکھتا ہے تو کیا یہ دونوں غلام برابر ہوسکتے ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ نہیں،ہرگز نہیں،دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے!! [1] ۱۰۔ تنہا عبادت کا مستحق صرف وہی ہوسکتا ہے جو ہر چیز پر قدرت اور ہر چیز کا احاطہ کیے ہو،مکمل سلطنت و غلبہ اور ہر چیز کی نگہبانی کا مالک ہو،ہر چیز کا جسے علم ہو اور دنیا و آخرت اور نفع و ضرر کا جو مالک ہو،دینا اور نہ دینا جس کے ہاتھ میں ہو،جس کی یہ شان ہو وہ اس لائق ہے کہ یاد رکھا جائے تو بھلایا نہ جائے،شکر کیا جائے تو ناشکری نہ کی جائے،اطاعت کی جائے تو نافرمانی نہ کی جائے،اور اس کے ساتھ کسی غیر کو شریک نہ کیا جائے۔[2] اور کمال مطلق کے اوصاف صرف اور صرف اللہ عزوجل کے لیے ہیں جن کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا،لیکن ان میں سے چند اوصاف کمال درج ذیل ہیں :
[1] دیکھئے: تفسیر البغوی: ۴/ ۷۸۔وابن کثیر: ۴/ ۵۲۔والتفسیر القیم لابن القیم،ص: ۴۲۳۔وفتح القدیر للشوکاني: ۴/ ۴۶۲۔ و تفسیر السعدي: ۶/ ۴۶۸۔وتفسیر الجزائری: ۴/ ۴۳۔ [2] دیکھئے: تفسیر البغوي: ۱/۲۳۷،۳/ ۷۱،۲/۸۸،۳۷۲۔وابن کثیر: ۱/ ۳۰۹،۲/ ۵۷۲،۳/ ۴۲،۲/ ۱۲۷،۴۳۵،۱/ ۳۴۴،۲/ ۱۳۸۔ و تفسیر السعدي: ۱/ ۳۱۳،۷/ ۶۸۶،۲/ ۳۸۱،۳/ ۳۹۷،۴/ ۲۰۴،۶/ ۳۶۴،۱/ ۳۵۶،۲/ ۳۷۲۔وأضواء البیان: ۲/ ۱۸۷،۳/ ۲۷۱۔