کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 40
﴿مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ ﴾[الملک:۳] ’’ آپ اللہ رحمن کی تخلیق میں کوئی بے سلیقگی اور کجی نہ دیکھیں گے۔‘‘ اور ہر چیز مسخر اور مخلوقات کی مصلحتوں کے لیے حکمت کے ساتھ پابند کی ہوئی ہے،جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دنیا کا مدبر ایک ہے،اس کا ربّ ایک ہے،اس کا معبود ایک ہے،جس کے سوا نہ تو کوئی معبود ہے اور نہ کوئی خالق۔[1] ۳۔ تمام عقلاء کے نزدیک یہ بات معلوم ہے کہ اللہ کے علاوہ جن معبودان کی بھی عبادت کی جاتی ہے وہ تمام وجوہ سے کمزور،عاجز اور بے بس ہیں،نیز یہ معبودان اپنے لیے یا اپنے علاوہ کسی اور کے لیے کسی بھی نفع یا نقصان،زندگی یا موت،دینے یا نہ دینے،بلند یا پست کرنے،عزت یا ذلت دینے کے مالک نہیں ہیں،اور نہ ان صفات میں سے کسی صفت سے متصف ہیں،جن سے معبودِ حقیقی (اللہ سبحانہ وتعالیٰ) متصف ہے،تو جس کی یہ حالت ہو اس کی عبادت کیسے ہوسکتی ہے؟ اور جس کے یہ اوصاف ہوں اس سے کیسے اُمید لگائی جاسکتی ہے یا ڈرا جاسکتا ہے؟ اور ایسے معبود سے کیسے سوال کیا جاسکتا ہے جو نہ سن سکتا ہے،نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی اسے کسی چیز کا علم ہے؟ [2] اللہ عزوجل کے علاوہ جن کی بھی عبادت کی جاتی ہے،ان کی عاجزی و درماندگی کو اللہ تعالیٰ نے بڑی اچھی طرح بیان فرمایا ہے،ارشادِ باری ہے: ﴿قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا
[1] دیکھئے: درء تعارض العقل والنقل لابن تیمیۃ: ۹/۳۵۲،۳۵۴،۳۳۷۔۳۸۲،۱/ ۳۵،۳۷۔وتفسیر البغوی: ۳/۲۴۱،۳۱۶۔وابن کثیر: ۳/ ۲۵۵،۱۷۶۔وفتح القدیر للشوکانی: ۳/۴۰۲،۴۹۶۔وتفسیر عبدالرحمن السعدي: ۵/۲۲۰،۳۷۴۔وأیسر التفاسیر لأبي بکر جابر الجزائری: ۳/۹۹۔ومناہج الجدل في القرآن الکریم للدکتور زاہر بن عواض الألمعي،ص:۱۵۸،۱۶۱۔ [2] دیکھئے : تفسیر ابن کثیر: ۲/ ۸۳،۲۱۹،۲۷۷،۴۱۷،۳/ ۴۷،۲۱۱،۳۱۰۔وتفسیر السعدي: ۲/۳۲۷،۴۲۰،۳/ ۲۹۰،۴۵۱،۵/ ۲۷۹،۴۵۷،۶/ ۱۵۳۔وأضواء البیان للشنقیطي: ۲/ ۴۸۲،۳/ ۱۰۱،۳۲۲،۵۹۸،۵/ ۴۴،۶/ ۲۶۸۔