کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 39
متحرک بھی ہو اور ساکن بھی ہو۔ ٭ اگر دونوں میں سے کسی ایک کی بھی چاہت حاصل نہ ہو تو اس سے ہر دو معبودوں کا عاجز و درماندہ ہونا لازم آئے گا،اور درماندگی ربوبیت کے منافی ہے۔ ٭ اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کی چاہت پائی جائے اور وہی نافذ ہو،دوسرے کی نہیں تو جس کی چاہت پائی جائے گی وہی قدرت والا معبود مانا جائے گا اور دوسرا عاجز،کمزور اور بے بس قرار پائے گا۔ ٭ اور تمام معاملات میں دونوں کا ایک ہی چاہت پر متفق ہونا ناممکن ہے،اور اس وقت متعین ہوجاتا ہے کہ طاقتور اور اپنے معاملے پر غالب وہی ذات ہے،تنہا جس کی چاہت پائی جارہی ہے،جسے نہ کوئی روک ٹوک کرنے والا ہے،نہ آڑے آنے والا،نہ جھگڑنے والا،نہ مخالف اور نہ ہی کوئی شریک ہے،اور وہ اللہ عزوجل ہے جو پیدا کرنے والا تنہا معبود ہے جس کے سوا نہ کوئی معبودِ برحق ہے اور نہ کوئی ربّ اور پالنہار،اور اسی وجہ سے اللہ عزوجل نے دلیل تمانع کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ () عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾ [المومنون:۹۱،۹۲] ’’ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیٹا نہیں بنایا ہے،اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے،ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لیے لیے پھرتا،اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا،اللہ کی ذات پاک اور بے نیاز ہے،ان تمام اوصاف سے جن سے یہ متصف کرتے ہیں،وہ غیب و حاضر کا جاننے والا ہے اور جو شرک یہ کرتے ہیں،اس سے بلند و بالا ہے۔‘‘ عالم علوی و سفلی کا استحکام اور از وقت خلقت اس کا نظم و نسق اور بعض کا بعض سے ربط انتہائی گہرا اور مکمل ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: