کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 33
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو آگ پر حرام قرار دیا ہے جو لا الٰہ الا اللّٰہ کا اقرار کرتا ہو اور اس سے اللہ کی رضا چاہتا ہو۔‘‘
۸۔ اگر بندے کے دل میں رائی کے ادنیٰ دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو وہ اسے جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہنے سے مانع ہوگا۔[1]
۹۔ اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کا سب سے عظیم سبب توحید ہی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پانے والا سب سے خوش بخت شخص وہ ہے جس نے خلوصِ دل یا خلوصِ نیت سے ’’ لا الٰہ الا اللّٰہ ‘‘ پڑھا ہو۔[2]
۱۰۔ تمام ظاہری و باطنی اعمال و اقوال کی قبولیت،کمال اور ان پر اجر و ثواب کا مرتب ہونا توحید پر موقوف ہے،چنانچہ جس قدر اللہ کے لیے توحید اور خلوص و للہیت قوی اور مضبوط تر ہوگا اسی قدر یہ اعمال و اقوال بھی مکمل اور تام ہوں گے۔
۱۱۔ توحید بندے پر نیکیوں کی انجام دہی اور برائیوں کے ترک کو سہل اور آسان بنادیتی ہے اور اسے مصائب میں تسلی بخشتی ہے،چنانچہ موحد پر جو اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی توحید میں مخلص ہو،نیکیوں کی انجام دہی آسان ہوتی ہے،کیونکہ اسے اپنے رب کی رضا اور ثواب کی اُمید ہوتی ہے،اسی طرح اس کے لیے ان معاصی اور گناہوں کو ترک کرنا آسان ہوتا ہے جنھیں انجام دینے کے لیے اس کا نفس آمادہ ہوتا ہے،کیونکہ اسے اللہ کی ناراضی اور سزا کا خوف ہوتا ہے۔
۱۲۔ توحید جب دل میں مکمل ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ موحد کے لیے ایمان کو محبوب بنادیتا ہے اور اسے اس کے دل میں مزین و آراستہ کردیتا ہے،اور اس کے نزدیک کفر،فسق اور نافرمانی کو ناپسندیدہ اور مبغوض کردیتا ہے،اور اسے ہدایت یافتہ لوگوں کے زمرہ میں
[1] دیکھئے: صحیح البخاري،کتاب التوحید،باب قول اللّٰہ تعالیٰ: ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَيَّ﴾،حدیث: ۷۴۱۰۔وصحیح مسلم،کتاب الایمان،باب معرفۃ طریق الرؤیۃ: ۱/۱۷۰،حدیث: ۱۸۳،۱۹۳۔
[2] بخاري،کتاب العلم،باب الحرص علی الحدیث: ۱/ ۳۸،حدیث: ۹۹۔