کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 27
بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ۔)) [1] ’’ ....بے شک اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو آگ پر حرام قرار دیا ہے جو لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہو اور اس سے اللہ کی رضا چاہتا ہو۔‘‘ تیسرا مطلب....توحید کی قسمیں : اللہ تبارک وتعالیٰ ہی اپنی تمام مخلوقات پر اُلوہیت اور عبودیت کا حق دار ہے،چنانچہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کے لیے ساری عبادتیں کرنا اور پورے دین کو اللہ کے لیے خالص کردینا ہی توحید اُلوہیت ہے،اور یہی کلمہ ’’ لا الٰہ الا اللّٰہ ‘‘ کا معنی و مفہوم ہے،اور یہ توحید کی تمام اقسام[2] کو شامل اور مستلزم ہے،کیونکہ توحید کی دو اقسام ہیں : ۱۔ توحید خبری علمی اعتقادی۔[3] یہ توحید معرفت اور اثبات ہے،اور یہی توحید ربوبیت اور توحید اسماء و صفات بھی ہے،یہ ذات باری تعالیٰ،اس کی صفات،اس کے افعال،اس کے اسماء،اس کے اپنی مشیت کے مطابق اپنے بندوں سے اپنی کتابوں کے ذریعہ سے کلام کرنے کی حقیقت کے اثبات کا نام ہے،اور اس کی قضاء و قدر اور اس کی حکمت کے عموم کو ثابت کرنے اور اس کی ذات کو ان تمام عیوب و نقائص سے مبرا و منزہ کرنے کا نام ہے جو اس کے شایانِ شان نہیں۔ ۲۔ توحید طلبی قصدی ارادی۔ یہ طلب اور قصد میں توحید ہے،اور اسی کا نام ’’توحید الوہیت‘‘ یا ’’عبادت‘‘ ہے۔[4]
[1] متفق علیہ: بخاري،کتاب الصلاۃ،باب المساجد في البیوت: ۱/ ۱۲۵،ح: ۴۲۵۔ومسلم،کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،باب الرخصۃ في التخلف عن الجماعۃ بعذر: ۱/ ۴۵۵،ح: ۳۳۔ [2] دیکھئے: تیسیر العزیز الحمید للشیخ سلیمان بن عبداللّٰہ بن محمد بن عبدالوہاب،ص: ۷۴ والقول السدید للسعدی،ص: ۱۷۔وبیان حقیقۃ التوحید للشیخ صالح الفوزان،ص: ۲۰۔ [3] دیکھئے: مدارج السالکین لابن القیم: ۳/ ۴۴۹۔ [4] دیکھئے: اجتماع الجیوش الاسلامیۃ علی غزو المعطلۃ والجہمیۃ لابن القیم: ۲/ ۹۴۔ومعارج القبول لحافظ الحکمي: ۱/ ۹۸۔وفتح المجید لعبد الرحمٰن بن حسن،ص: ۱۷۔