کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 26
مَنْ لاَّ یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا۔)) ....’’ بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ اللہ اس شخص کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کرے۔‘‘[1]
یہ عظیم حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کریں جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عبادتیں مشروع قرار دی ہیں اور اس کے ساتھ اس کے علاوہ کسی کو شریک نہ کریں،نیز بندوں کا حق اللہ عزوجل پر یہ ہے کہ وہ اس شخص کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کچھ شریک نہ کرے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جس ثواب کے عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے،وہ ان کا اللہ تعالیٰ پر حق ہے اور یہ وہ حق ہے جو اللہ تعالیٰ کے قول حق اور سچے وعدہ کے بموجب ثابت ہوا ہے جس میں نہ تو خبر کے جھوٹ ہونے کا کوئی امکان ہے اور نہ ہی وعدہ خلافی کا کوئی اندیشہ،بلکہ یہ وہ حق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ازروئے فضل و کرم اپنی ذات پر واجب کرلیا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی ذات پر اپنے مومن بندوں کے لیے ایک حق اسی طرح واجب کرلیا ہے جس طرح اپنی ذات پر ظلم کو حرام کرلیا ہے،اسے کسی مخلوق نے اللہ پر لازم نہیں کیا ہے،اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوقات پر قیاس کیا جاسکتا ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور عدل کے فیصلہ سے اپنی ذات پر رحمت لکھ لی ہے اور اپنے آپ پر ظلم کو حرام کرلیا ہے۔[2]
۹۔ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:
(( ....فَإِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ،یَبْتَغِيْ
[1] متفق علیہ: صحیح بخاري کتاب اللباس،باب ارداف الرجل خلف الرجل: ۷/ ۸۹۔حدیث نمبر: ۵۹۶۷۔ومسلم،کتاب الایمان،باب الدلیل علی أن من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا: ۱/ ۵۸،حدیث نمبر: ۳۰۔مذکورہ الفاظ بخاری کے ہیں۔حدیث نمبر: ۲۸۵۶ و ۶۵۰۰۔
[2] دیکھئے: المفہم لما أشکل من تلخیص کتاب مسلم للقرطبی: ۱/۲۰۳۔وشرح النووی علی مسلم: ۱/ ۳۴۵۔ومجموع فتاویٰ ابن تیمیۃ: ۱/۲۱۳۔