کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 24
پس اللہ تعالیٰ نے توحید کا فیصلہ کرتے ہوئے،وصیت کرتے ہوئے،حکم دیتے ہوئے اور تاکیدی طور پر لازم کرتے ہوئے فرمایا: ﴿﴾ اور تمہارے رب نے دینی طور پر فیصلہ کردیا ہے اور شرعاً لازم کردیا ہے کہ ﴿﴾ تم زمین اور آسمان میں رہنے والوں میں سے،خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ کسی کی عبادت نہ کرو ﴿﴾ سوائے اسی (اللہ) کے،کیونکہ وہ تنہا،اکیلا،منفرد اور بے نیاز ہے۔[1]
﴿يَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ﴾[الاعراف:۵۹]
’’ اے میری قوم! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ تم صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو،کیونکہ وہی خالق،رازق اور تمام معاملات کی تدبیر کرنے والا ہے اور اس کے سوا جو بھی ہے وہ مخلوق اور محتاج ہے،اسے کسی معاملہ کا کوئی اختیار نہیں۔[2]
۶۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ﴾[البینہ:۵]
’’ اور انھیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں،اسی کے لیے دین کو خالص کرکے۔‘‘
۷۔ اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ () لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ﴾[الانعام:۱۶۲،۱۶۳]
’’ آپ کہہ دیجیے کہ بے شک میری نماز،میری قربانی،میری زندگی اور میری
[1] دیکھئے: جامع البیان عن تأویل آي القرآن للطبری،۱۷/ ۴۱۳۔وتفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،۳/ ۳۴۔وتیسیر الکریم الرحمٰن في تفسیر کلام المنان للسعدی،ص: ۴۰۷۔
[2] دیکھئے: تیسیر الکریم الرحمٰن في تفسیر کلام المنان للسعدی،ص: ۲۵۵۔