کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 23
سے امتیں دو حصوں میں تقسیم ہوگئیں۔ایک وہ جن کو اللہ نے ہدایت عطا فرمائی،چنانچہ ان اُمتوں نے رسولوں کی اتباع کی اور دوسرے وہ جن پر گمراہی ثابت ہوگئی،چنانچہ انھوں نے راہِ ہلاکت کی پیروی کی۔[1]
۳۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾[الانبیاء:۲۵]
’’ اور ہم نے آپ سے قبل کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم نے اس کی طرف وحی کی کہ میرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں،لہٰذا میری ہی عبادت کرو۔‘‘
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل تمام رسولوں کی رسالت کا نچوڑ اور خلاصہ اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کا حکم دینا اور اس بات کی وضاحت کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ حقیقی ہے اور اس کے علاوہ کی عبادت باطل ہے۔[2] اسی لیے اللہ عزوجل نے فرمایا:
﴿وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ ﴾[الزخرف:۴۵]
’’ اور آپ ہمارے ان رسولوں سے پوچھئے جنھیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا کہ کیا ہم نے رحمن کے علاوہ اور معبود مقرر کیے تھے جن کی عبادت کی جائے؟ ‘‘
۴۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾[الاسراء:۲۳]
’’ اور تمہارے رب نے صاف صاف فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ احسان (حسن سلوک) کرو۔‘‘
[1] دیکھئے: تیسیر الکریم الرحمٰن في تفسیر کلام المنان للسعدی،ص: ۳۹۳۔
[2] جامع البیان عن تأویل آي القرآن للطبری،۱۸/ ۴۲۷،وتیسیر الکریم الرحمٰن في تفسیر کلام المنان للسعدی،ص: ۴۷۰۔