کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 22
ہیں،لیکن ان میں سے چند دلائل بطورِ نمونہ درج ذیل ہیں :
۱۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ () مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ () إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ﴾ [الذاریات:۵۶ تا ۵۸]
’’ اور میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے،میں ان سے کوئی روزی نہیں چاہتا اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں بے شک اللہ تعالیٰ ہی روزی رساں قوت والا مضبوط ہے۔‘‘
مفہوم یہ ہے کہ میں نے جن و انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری توحید کا اقرار کریں۔[1]
۲۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ﴾ [النحل:۳۶]
’’ اور ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیجا (یہ حکم دے کر) کہ میری عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو تو ان میں سے کچھ لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی اور کچھ لوگوں پر گمراہی ثابت ہوگئی۔‘‘
ان آیات میں اللہ عزوجل اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ اس کی حجت تمام اُمتوں پر قائم ہوچکی ہے اور کوئی بھی اگلی یا پچھلی اُمت نہیں ہے مگر اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک رسول مبعوث فرمایا ہے اور وہ سارے انبیاء و رسل ایک دعوت اور ایک دین پر متفق ہیں،اور وہ ہے تنہا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا جس کا کوئی شریک نہیں،پھر انبیاء کی دعوت کو تسلیم کرنے کے اعتبار
[1] الجامع لأحکام القرآن الکریم للقرطبی: ۱۷/ ۵۷۔