کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 186
’’ جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دے دیں گے اور ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘ مزید اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ﴾[البقرۃ:۲۰۰] ’’ بعض لوگ ایسے (بھی) ہیں جو کہتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے،ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یَبْتَغِيْ بِہِ وَجْہَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ لَا یَتَعَلَّمُہُ إِلاَّ لِیُصِیْبَ بِہِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْ عَرفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَعْنِيْ رِیْحَہَا۔)) [1] ’’ جو کوئی اللہ عزوجل کی خوشنودی کی خاطر حاصل کیا جانے والا علم محض کسی دنیوی سازو سامان کے حصول کے لیے سیکھے وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ((لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِتَبَاہُوْا بِہِ الْعُلَمَائَ،وَلَا لِتَمَارَوْا بِہِ السُّفَہَائَ،وَلَا لِتُخُیَّرُوْا بِہِ الْمَجَالِسَ،فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ فَالنَّارُ
[1] ابو داؤد،کتاب العلم،باب فی طلب العلم لغیر اللّٰہ: ۳/ ۳۲۳،حدیث: ۳۶۶۴۔ابن ماجۃ،المقدمۃ،باب الانتفاع بالعلم: ۱/ ۹۳،حدیث: ۲۵۲۔اس حدیث کو علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابن ماجہ (۱/ ۴۸) میں صحیح قرار دیا ہے۔