کتاب: روشني اور اندھیرا - صفحہ 176
کے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کے خواہاں ہیں۔[1]
نیت عمل کی اساس و بنیاد اور اس کا وہ ستون ہے جس پر عمل کا دارو مدار ہے،کیونکہ نیت عمل کی روح اور اس کا قائد و رہبر ہے،اور عمل نیت کے تابع ہے،عمل کی صحت و خرابی نیت کی صحت و خرابی پر موقوف ہے،نیک نیتی سے توفیق اور بدنیتی سے رسوائی حاصل ہوتی ہے،نیت ہی کے اعتبار سے دنیا و آخرت کے مراتب و درجات میں فرق آتا ہے،[2] اسی لیے نبی کریم صلی کا ارشاد ہے:
(( إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی ....)) [3]
’’ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے،اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے....‘‘
اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ [النساء:۱۱۴]
’’ ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی خیر نہیں،ہاں ! بھلائی اس کے مشوروں میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم دے،اور جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا اجر و ثواب دیں گے۔‘‘
یہ ارشادِ ربانی نیت کے مقام و مرتبہ اور اس کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے،نیز یہ کہ اللہ کی
[1] دیکھئے: مجموع فتاویٰ سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللّٰہ: ۱/ ۳۴۹،۴/ ۲۲۹۔
[2] دیکھئے: النیۃ واثرہا فی الاحکام الشرعیۃ،از ڈاکٹر صالح بن غانم السدلان: ۱/ ۱۵۱۔
[3] متفق علیہ بروایت عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ: صحیح بخاری،کتاب بدء الوحی،باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۱/ ۹،حدیث: ۱۔صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’ إنما الأعمال بالنیات ‘‘: ۳/ ۱۵۱۵،حدیث: ۱۹۰۷۔