کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 97
ضَیْعَتُہٗ)[1] کے الفاظ ہیں۔ یعنی (اس کا ذریعہ معاش اُسے کفایت کرے گا)۔ ۳: امام ابن ماجہ نے حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’میں نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’مَنْ جَعَلَ الْہُمُوْمَ ہَمًّا وَّاحِدًا: ہَمَّ الْمَعَادِ، کَفَاہُ اللّٰہُ ہَمَّ دُنْیَاہُ۔ وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِہٖ الْہُمُوْمُ فِيْٓ أَحْوَالِ الدُّنْیَا، لَمْ یُبَالِ اللّٰہُ فِيْٓ أَيِّ أَوْدِ یَتِہٖ ہَلَکَ۔‘‘[2] (جس شخص نے سارے عزائم چھوڑ کر ایک عزم بنالیا، تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا کے غم سے کفایت کردیتے ہیں اور جس کے عزائم دنیاوی معاملات میں منتشر رہے، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ پروا نہیں، کہ وہ اُن کی کس وادی میں ہلاک ہوگیا۔) ب: ان دلائل کے حوالے سے دو باتیں: ۱: آخرت کو مطمۂ نظر بنانے سے مراد: آخرت اور معاد کو اپنی نیت، ہدف اور نشانہ بنانے کا مطلب یہ نہیں،
[1] بحوالہ: صحیح الترغیب والترہیب، کتاب التوبۃ والزہد، الترغیب فی الفراغ للعبادۃ…، جزء من رقم الحدیث ۳۱۶۸ (۴)، ۳/۲۳۰۔۲۳۱۔ شیخ البانی نے اسے (صحیح لغیرہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۳/۲۳۱)۔ حافظ ابن جوزی نے (ضَیْعَتُہٗ] کی شرح میں تحریر کیا ہے: ’’وَہِیَ مَا یَکُوْنُ مِنْہَا مَعَاشُہٗ‘‘ (جس سے اس کی معیشت وابستہ ہو۔] ملاحظہ ہو: غریب الحدیث، باب الضاد مع الیاء، ۲/۲۲۔ نیز ملاحظہ ہو: النہایۃ في غریب الحدیث والأثر، مادۃ ’’ضیع، ۳/۱۰۸۔ [2] سنن ابن ماجہ، أبواب الزہد، باب الہمّ بالدنیا، رقم الحدیث ۴۱۰۶، ص ۶۷۴۔ شیخ البانی اور شیخ عصام نے اسے (حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابن ماجہ ۲/۳۹۳؛ وہامش السنن ص ۶۷۴)۔