کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 90
آیتِ کریمہ کی تفسیر کے متعلق مذکورہ بالا تینوں اقوال میں سے جو قول بھی لیا جائے، اس میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی وجہ سے رزق کی وسعت و فراخی کا وعدہ براہِ راست یا بالواسطہ موجود ہے۔اللہ رب العزت کا وعدہ سچ اور حق ہے: {أَ لَا اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌِّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ}[1] (یاد رکھو! بے شک اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔) اور وہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں فرماتے: {وَعْدَ اللّٰہِ لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ}[2] (یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔) (iii): تاریخِ عالَم کی گواہی: تاریخِ عالَم اس وعدے کی سچائی پر دلالت کرتی ہے اور آج بھی اس وعدے کی صداقت عیاں ہے۔ تاریخِ اسلام سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص بھی اس بات سے بے خبر نہیں، کہ جب حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت کرکے مکہ مکرمہ میں اپنے اعزہ و اقارب، گھروں، سازوسامان اور مال و دولت کو چھوڑا، تو اللہ مالک الملک نے انہیں سرزمینِ شام، ایران اور یمن کے خزانوں کی چابیاں عطا فرمادیں۔ شام کےسرخ محلاّت اور مدائن کے سفید محلاّت کا انہیں مالک بنایا۔ صنعا کے دروازے ان کے لیے کھول دیے اور قیصر و کسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں ڈھیر ہوگئے۔ علامہ رازی مذکورہ بالا آیت ِکریمہ کی تفسیر کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’آیت ِکریمہ کا خلاصہ یہ ہے، کہ گویا اس میں کہا گیا ہے: ’’اے انسان!
[1] سورۃ یونس ـ علیہ السلام ـ/جزء من الآیۃ ۵۵۔ [2] سورۃ الروم / الآیۃ ۶۔