کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 88
کافروں کے مقابلے میں مومنوں کی نصرت وتائید ہو۔[1] ب: راہ الٰہی میں ہجرت کا سببِ رزق ہونے کی دلیل: درج ذیل آیت مبارکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کے رزق کا سبب ہونے پر دلالت کرتی ہے: {وَ مَنْ یُّہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً}[2] (اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا وطن چھوڑے، وہ زمین میں رہنے کی بہت جگہ اور روزی میں کشادگی پائے گا۔) اس آیت شریفہ میں (اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت) کے دو انعامات بیان کیے گئے ہیں: پہلا انعام {مُرٰغَمًا کَثِیْرًا} اور دوسرا انعام {سَعَۃً} ۔ (مُرٰغَمًا کَثِیْرًا) سے مراد: …جیسا کہ علامہ رازی نے لکھا ہے… یہ ہے: ’’اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے شہر کو چھوڑ کر دوسرے شہر میں جانے والا، اس شہر میں خیر و نعمت پائے گا اور یہ بات پہلے شہر والوں کے لیے ذلّت اور رسوائی کا سبب ہوگی، کیونکہ جب وطن چھوڑ کر جانے والے کے دوسری جگہ کے معاملات اور اس کی خبر وطن کے لوگوں کو پہنچے گی، تو وہ اس کےساتھ اپنے بُرے سلوک کی وجہ سے شرمندہ ہوں گے اور انہیں اپنی ذلّت اور بے عزتی کا احساس ہوگا۔‘‘[3]
[1] کتاب التعریفات، باب الہاء، الرقم ۱۵۸۲، ص ۳۱۹۔ [2] سورۃ النسآء / جزء من رقم الآیۃ ۱۰۰۔ [3] التفسیر الکبیر ۱۱/۱۵۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر القاسمي ۵/۴۰۷؛ وتفسیر التحریر والتنویر ۵/۱۸۰۔ اس میں ہے: نئی جگہ میں استقرار حاصل کرکے یہ ان لوگوں کی تذلیل کا سبب بنے گا، جنہوں نے اُسے وطن سے نکل جانے پر مجبور کیا۔ یعنی جس طرح اُس کی قوم نے اُسے کفر پر مجبور کرکے اپنی برتری کا اظہار کیا، اسی طرح یہ ان کی گرفت اور اثرات سے آزاد ہوکر ان کی ذلت اور بدنامی کا سبب بنا۔