کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 79
کہنے لگا: ’’جس بادل کا یہ پانی ہے، میں نے اُس میں ایک آواز سنی تھی: ’’فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو۔‘‘ اور وہ تیرا ہی نام تھا۔ تو اِس باغ میں کیا عمل کرتا ہے؟‘‘ اُس نے جواب میں کہا: ’’تو نے جب یہ بات مجھے بتلائی ہے، (تو میں بھی تمہیں اپنی بات بتلادیتا ہوں)، میرا طریقہ یہ ہے، کہ اس باغ کی پیداوار کا ایک تہائی حصہ بطورِ خیرات تقسیم کردیتا ہوں، ایک تہائی میں اور میرے گھر والے کھالیتے ہیں اور ایک تہائی باغ کی ترقی کے لیے اس پر خرچ کردیتا ہوں۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے: ’’ایک تہائی مسکینوں، سوال کرنے والوں اور مسافروں کو دے دیتا ہوں۔‘‘[1] امام نووی لکھتے ہیں: ’’اس حدیث سے صدقہ کرنے، مسکینوں اور مسافروں کے ساتھ احسان کرنے، اپنی کمائی سے خود کھانے اور گھر والوں پر خرچ کرنے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔‘‘[2] حاصلِ کلام یہ ہے، کہ رزق کی چابیوں میں سے ایک اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اللہ ربّ العزت اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو دنیا میں اس مال سے کہیں زیادہ عطا فرماتے ہیں اور آخرت کا اجر و ثواب اس سے الگ ہے۔
[1] صحیح مسلم ۴/۲۲۸۸۔ [2] شرح النووي ۱۸/۱۱۵۔