کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 76
مِّنْ شَیْئٍ}۔[1]
یہ بھی معلوم رہے، کہ فرشتوں کی دعا بارگاہِ الٰہی میں قبول کی جاتی ہے،[2] کیونکہ وہ ان کی اجازت کے بغیر کسی کے لیے دعا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَ لَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَ ہُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ}[3]
(اور وہ (فرشتے) کسی کی سفارش نہیں کرسکتے، مگر جس کے لیے وہ (اللہ تعالیٰ) پسند کریں اور وہ ان کے جلال سے ڈر رہے ہیں۔)
۵: امام بیہقی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’أَ نْفِقْ بِلَالُ! وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِيْ الْعَرْشِ إِقْلَالًا۔‘‘[4]
’’بلال! خرچ کرو اور عرش والے سے تنگی کا اندیشہ نہ رکھو۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے لیے رزق کے ملنے کی کتنی مضبوط اور پکی ضمانت ہے!
[1] ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۴/۳۶۶۔
سید محمد رشید رضا لکھتے ہیں: ’’میرے نزدیک اس دعا کا معنٰی یہ ہے، کہ سننِ الٰہیہ میں سے یہ بات ہے، کہ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کے لیے اسبابِ رزق کو آسان و سہل کردیتے ہیں، دلوں میں اس کی عظمت جما دیتے ہیں اور بخیل ان باتوں سے محروم رہتا ہے۔‘‘ (تفسیر المنار ۳/۷۴)۔
[2] ملاحظہ ہو: عمدۃ القاري ۸/۳۰۷۔
[3] سورۃ الأنبیآء / الآیۃ ۲۸۔
[4] ملاحظہ ہو: مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الزکاۃ، باب الإنفاق وکراہیۃ الإمساک، الفصل الثالث، جزء من رقم الحدیث ۱۸۸۵، ۱/۵۹۰۔۵۹۱۔ محدثین نے اس حدیث کو (ثابت] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد ۳/۱۲۶؛ وکشف الخفاء ومزیل الإلباس ۱/۲۴۳۔۲۴۴؛ وتنقیح الرواۃ في تخریج أحادیث المشکوٰۃ ۲/۱۹؛ وہامش مشکوٰۃ المصابیح للشیخ الألباني ۱/۵۹۱)۔