کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 72
انسان کو عاریتاً دی گئی ہیں۔ یہ چیزیں گویا کہ اللہ تعالیٰ کے رزق عطا فرمانے کی ذمہ داری کے لیے بطور رہن ہیں، تاکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملنے کا یقینِ کامل ہوجائے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود انسان (یعنی بہت سے لوگ) اپنے مال کو (اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق) خرچ نہیں کرتے اور اجر و ثواب اور قدر افزائی سے محروم ہوتے ہوئے، اُسے تباہ و برباد ہونے دیتے ہیں۔‘‘[1] تنبیہ: مذکورہ بالا آیت ِکریمہ میں ایک انتہائی قابلِ توجہ بات یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لیے بدل عطا فرمانے کا جو وعدہ فرمایا ہے، اس کی پختگی اور مضبوطی کے لیے درجِ ذیل تین تاکیدات فرمائی ہیں: ۱: بیانِ وعدہ کے لیے شرطیہ صیغہ کا استعمال ۔ ۲: شرط کی جزا بیان کرنے کے لیے جملہ اسمیہ کا استعمال ۔ ۳: جملہ اسمیہ جزائیہ میں مبتداکی خبر فعلی پر تقدیم ۔ اور یہ تینوں تاکیدات اس بات پر دلالت کرتی ہیں، کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا وعدہ پورا کرنے کا کتنا شدید اہتمام ہے۔[2] اور اللہ تعالیٰ تو وہ ہیں، کہ اُن کا وعدہ تاکید کے بغیر بھی ہو، تو اُس کے پورا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ {وَ مَنْ اَوْفٰی بِعَہْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ}[3] (اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے؟) ۲: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِ وَ اللّٰہُ
[1] التفسیر الکبیر ۲۵/۲۶۳۔ [2] ملاحظہ ہو: تفسیر التحریر والتنویر ۲۲/۲۲۰۔ [3] سورۃ التوبۃ / جزء من رقم الآیۃ ۱۱۱۔