کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 66
جس سینے میں ایمان اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی محبت اکٹھی نہیں ہوسکتی، کیونکہ جب آدمی کسی سے محبت کرتا ہے، تو پھر اس کے ساتھ ، اُس کے دشمنوں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘[1] امام مالک نے اسی آیت سے قدریہ فرقے کے لوگوں کے ساتھ دشمنی اور عداوت رکھنے اور ان سے قطع تعلق پر استدلال کیا ہے۔[2] علامہ قرطبی، حضرت امام رحمہ اللہ کے استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ظلم و زیادتی کرنے والے سارے لوگ قدریہ فرقے کے لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے مستحق ہیں۔‘‘ [3] حافظ ابن کثیر اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’وہ (یعنی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے) اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمانوں سے دوستی نہیں رکھتے، خواہ وہ ان کے اعزہ و اقارب ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘[4] نافرمان اور بُرے رشتہ داروں کے ساتھ حقیقی اور سچی صلہ رحمی تو یہ ہے، کہ انہیں نیکی کی راہ پر لانے ، چلانے اور بُرائی سے ہٹانے ، بچانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی جائے۔ یہ رشتہ دار نیکی کی راہ کو چھوڑ کر اور بدی کی راہ پر چل کر
[1] التفسیر الکبیر ۲۹/۲۷۶؛ نیز ملاحظہ ہو: فتح القدیر ۵/۲۷۲۔ [2] ملاحظہ ہو: أحکام القرآن لابن العربي ۴/۱۷۶۳؛ وتفسیر القرطبي ۱۷/۳۰۸۔ [3] المرجع السابق ۱۷/۳۰۸؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر التحریر والتنویر ۲۸/۶۰۔ تنبیہ:…قدریہ فرقے سے مراد وہ لوگ ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا انکار کرتے ہیں۔ علامہ قرطبی کے بیان کا مقصود یہ ہے ، کہ جس طرح امام مالک نے مذکورہ بالا آیت سے قدریہ فرقے کے لوگوں سے دشمنی اور عداوت رکھنے اور ان سے قطع تعلق پر استدلال کیا ہے، اسی طرح ظلم و زیادتی کرنے والے لوگوں کے ساتھ اسی قسم کا معاملہ کرنا، اس آیت سے ثابت ہوتا ہے۔ [4] تفسیر ابن کثیر ۴/۳۴۷۔