کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 58
بہن بھائی مَحْرَم نہ ہونے کی وجہ سے (الرحم) سے خارج ہوجاتے ہیں اور یہ بات درست نہیں۔‘‘[1]
صلہ رحمی سے …بقول ملا علی قاری… مراد یہ ہے، کہ نسبی اور سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ احسان کیا جائے۔ ان کے ساتھ شفقت اور ہمدردی کا معاملہ کیا جائے اور ان کے حالات کی دیکھ بھال اور پاسداری کی جائے۔[2]
ب: صلہ رحمی کے کلیدِ رزق ہونے کے چھ دلائل:
صلہ رحمی کے وسعتِ رزق کا سبب ہونے کا ذکر متعدد احادیث و آثار میں آیا ہے، ان میں سے چھ درجِ ذیل ہیں:
ا: امام بخاری حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، کہ انہوں نے کہا، ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یُّبْسَطَ لَہٗ فِيْ رِزْقِہٖ، وَأَنْ یُّنْسَأَ لَہٗ فِیْ أَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ۔‘‘[3]
[1] فتح الباري ۱۰/۴۱۴۔
[2] ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۸/۶۴۷۔
[3] صحیح البخاري، کتاب الأدب، رقم الحدیث ۵۹۸۵، ۱۰/۴۱۵۔
تنبیہ:
اس حدیث میں صلہ رحمی سے عمر میں اضافے کے بارے میں بعض محدثین نے ایک سوال خود ہی اٹھا کر اس کا جواب دیا ہے۔ مثال کے طور پر امام ابن تین نے کہا ہے: ’’یہ حدیث ظاہری طور پر آیت کریمہ:
{فَاِذَا جَآئَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ}۔ (الأعراف/۳۴)۔
(ترجمہ: جب ان کا مقررہ وقت آگیا، تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے] سے متعارض ہے۔
اس تعارض کو دور کرنے کے لیے دو جوابات دیے گئے ہیں۔
پہلا جواب یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں برکت عطا فرمادیتے ہیں، کہ اسے نیکیوں کی توفیق میسر آتی ہے، آخرت کے لیے نفع بخش کاموں کے کرنے کا موقع ملتا ہے اور بے کار اور لایعنی باتوں سے اس کے وقت کو بچالیا جاتا ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے، کہ صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ حقیقی ہے، لیکن یہ اضافہ عمر والے فرشتہ کے اعتبار سے ہے ۔ آیت کریمہ میں عمر میں کمی و بیشی نہ ہونے کا جو ذکر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے علم کے اعتبار سے ہے۔ مثال کے طور پر عمر والے فرشتہ سے کہا گیا: ’’اگر فلاں شخص نے صلہ رحمی کی، تو اس کی عمر سو سال ہوگی اور اگر قطع رحمی کی ، تو ساٹھ سال۔‘‘
اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے، کہ وہ صلہ رحمی کرے گا یا قطع رحمی ۔ عمر کی حقیقی مدت، جو اللہ رب العزت کے علم میں ہے، اس میں کمی و بیشی نہیں، لیکن عمر کی اُس مدت میں ،جو فرشتہ کے علم میں ہے، نقصان و اضافہ ممکن ہے ۔ اسی بات کی طرف اللہ تعالیٰ کے اس ارشادِ گرامی میں اشارہ ہے۔
{یَمْحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآئُ وَ یُثْبِتُ وَ عِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ}۔ (سورۃ الرعد/ ۳۹)۔
(اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں، مٹا دیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں، ثابت رکھتے ہیں اور اصل کتاب (لوحِ محفوظ ) انہی کے پاس ہے۔]
مٹانا اور باقی رکھنا فرشتے کے علم کے اعتبار سے ہے اور جو اصل کتاب میں ہے، وہی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ۔ اسی کو (قضائے مُبْرَم] کہا جاتا ہے اور پہلے کو (قضائے معلَّق] کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ( ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۰/۴۱۶۔ نیز ملاحظہ ہو: شرح النووي ۱۶/۱۱۴؛ وعمدۃ القاري ۲۲/۹۱)۔