کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 47
دماغی سوچ بچار چھوڑ کر، پھٹے پرانے چیتھڑوں کی طرح زمین پر گرے رہنا اور ردّی گوشت کی طرح تختہ پر پڑے رہنا ہے۔ یقینا ایسا کرنا شریعت میں حرام ہے۔ توکل کرنے والوں کی اسلام میں تعریف کی گئی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے، کہ حرام کا ارتکاب کرنے والے شریعت کی نگاہ میں قابلِ تعریف قرار دیے جائیں؟ اس بارے میں حق کو آشکارا کرنے کی غرض سے ہم کہتے ہیں: ’’توکل کا اثر بندے کی اس سعی و کوشش میں ظاہر ہوتا ہے، جو اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر کرتا ہے۔‘‘ امام ابوقاسم قشیری بیان کرتے ہیں: ’’توکل کی جگہ دل ہے اور جب بندے کے دل میں یہ بات راسخ ہوجائے، کہ رزق اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے ، اگر تنگ دستی آئی، تو تقدیرِ الٰہی سے، آسانی ہوئی، تو ان کی عنایت و نوازش سے۔ایسی کیفیت حاصل ہونے کے بعد ظاہری حرکت توکل کے منافی نہیں۔‘‘[1] درجِ ذیل حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ توکل کا تقاضا رزق کے حصول کے لیے کوشش کا ترک کرنا نہیں۔ امام ابن حبان اور امام حاکم نے حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’’أُرْسِلُ نَاقَتِیْ وَأَتَوَکَّلُ۔‘‘ ’’میں اپنی اونٹنی کو کھلا چھوڑ دیتا ہوں اور توکل کرتا ہوں۔‘‘ قَالَ: ’’ اِعْقِلْہَا وَتَوَکَّلْ۔‘‘ [2]
[1] ماخوذ از: مرقاۃ المفاتیح ۹/۱۵۷۔ [2] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الرقائق، باب الورع والتوکّل، ذکر الإخبار بأن المرء یجب علیہ مع توکل القلب، الاحترازُ بالأعضاء ضد قول من کرھہ، رقم الحدیث ۷۳۱، ۲/۵۱۰؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ۳/۶۲۳۔ الفاظِ حدیث صحیح ابن حبان کے ہیں۔ حافظ ذہبی نے اس کی (سند کو جید] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التلخیص ۳/۶۲۳)۔ نیز دیکھئے: مجمع الزوائد ۱۰/۳۰۳۔