کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 46
رزق حاصل کرکے پلٹیں گے، جس طرح کہ سرِ شام پرندے رزق حاصل کرکے پلٹتے ہیں۔‘‘[1] امام احمد سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا گیا، جو اپنے گھر یا مسجد میں بیٹھے کہتا ہے: ’’میں تو کچھ کام نہیں کروں گا، میرا رزق خود میرے پاس آئے گا۔‘‘ انہوں نے جواب میں فرمایا: ’’یہ شخص علم سے کورا ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’اِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ رِزْقِيْ تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِيْ۔‘‘ ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میرا رزق میرے نیزے کے سایہ کے نیچے رکھا۔‘‘ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’لَوْ تَوَکَّلْتُمْ عَلَی اللّٰہِ حَقَّ تَوَکُّلِہِ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ، تَغْدُوْ خِمَاصًا وَّتَرُوْحُ بِطَانًا۔‘‘ ’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر کماحقہ توکل کرو، تو وہ تمہیں اسی طرح رزق عطا فرمائیں گے، جس طرح پرندوں کو رزق عطا فرماتے ہیں، کہ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر پلٹتے ہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا، کہ پرندے صبح و شام رزق کی جستجو میں آتے جاتے ہیں۔‘‘ حضرت امام نے مزید فرمایا: ’’حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم تجارت کرتے اور اپنے نخلستانوں (کھجوروں کے باغوں) میں کام کرتے تھے۔ اور وہ ہمارے لیے نمونہ ہیں۔‘‘ [2] شیخ ابوحامد (علامہ غزالی) اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’توکل کے بارے میں یہ سمجھنا احمقانہ سوچ ہے، کہ اس سے مراد حصولِ رزق کے لیے جسمانی کدوکاوش اور
[1] ماخوذ از: تحفۃ الأحوذي ۷/۸۔ [2] ماخوذ از: فتح الباري ۱۱/۳۰۵۔۶۔۳۔