کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 39
’’ثُبُوْتُ الْخَیْرِ الْإِلٰہِِيِّ فِيْ الشَّيْئِ۔‘‘[1]
’’کسی چیز میں خیرِ الٰہی کا دوام و ثبوت ہے۔‘‘
اس طرح (البرکات) کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے، کہ ایمان و تقویٰ کے بدلے میں ملنے والا ثمرہ و فائدہ عارضی اور وقتی نہیں یا ایسا نہیں، جو شر سے بدل جائے، بلکہ وہ دائمی اور ابدی خیر ہے۔
سید محمد رشید رضا نے ایمان و تقویٰ والوں پر نازل ہونے والی برکات کی عمدگی اور خوبی کو یوں بیان کیا ہے:
’’مومنوں پر جو نعمتیں اور برکات نازل کی جاتی ہیں، وہ ان پر خوش اور راضی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔وہ انہیں خیر کی راہوں میں استعمال کرتے اور شر و فساد کی جگہوں پر ان کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ نعمتوں اور برکات کے ملنے پر ان کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان پر اپنی نعمتوں میں اضافہ فرماتے ہیں اور آخرت میں انہیں بہترین اجر عطا فرمائیں گے۔‘‘[2]
شیخ ابن عاشور (البرکۃ) کی تفسیر میں قلم بند کرتے ہیں:
’’ہُوَ الْخَیْرُ الصَّالِحُ الَّذِيْ لَا تَبِعَۃَ عَلَیْہِ فِيْ الْآخِرَۃِ، فَہُوَ أَحْسَنُ أَحْوَالِ النِّعْمَۃِ۔‘‘[3]
’’وہ عمدہ خیر ہے، جس کے استعمال کی بنا پر آخرت میں کچھ مواخذہ نہیں ہوگا اور یہ نعمت کی بہترین کیفیت ہے۔‘‘
البرکات)
[1] تفسیر الخازن ۲/۲۶۶۔
[2] تفسیر المنار ۹/۲۵۔
[3] تفسیر التحریر والتنویر ۹/۲۲۔