کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 35
’’اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی پابندی کرنا۔[1] اور تقویٰ کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان ایسے کاموں سے بچا رہے، جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور عذاب کا سبب ہوں۔‘‘ ۳: علامہ جرجانی نے تحریر کیا ہے: ’’اَ لْاِحْتِرَازُ بِطَاعَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَنْ عُقُوبَتِہٖ، وَہُوَ صِیَانَۃُ النَّفْسِ عَمَّا تَسْتَحِقُّ بِہِ الْعُقُوْبَۃُ مِنْ فِعْلٍ اَوْ تَرْکٍ۔‘‘[2] ’’اللہ تعالیٰ کی اطاعت و تابعداری کے ذریعے سے اپنے آپ کو اُن کے عذاب سے بچانا اور اس مقصد کی خاطر اپنے نفس کو ایسے کام کرنے یا چھوڑنے سے بچائے رکھنا، جن کے کرنے یا چھوڑنے سے، انسان عذاب کا مستحق ٹھہرے۔‘‘ جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے آلودہ کیا، وہ متقی نہیں۔ جس نے اپنی آنکھوں سے حرام چیزوں کو دیکھا یا کانوں سے اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ باتوں کو شوق سے سُنا یا ممنوعہ اشیاء کو دلچسپی سے اپنے ہاتھوں میں لیا یا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے ٹھکانوں میں گیا، تو اس نے اپنے نفس کو گناہ سے نہیں بچایا۔ اپنے آپ کو گناہوں سے آلودہ کرکے اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے اور ان کے عذاب کو دعوت دینے والوں کا متقیوں سے کیا تعلق ہے؟ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی پروا نہ کرنے والے متقی لوگوں میں کیوں کر شمار کیے جاسکتے ہیں؟[3]
[1] یعنی اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا ہے، انہیں بجالائے اور جن باتوں سے منع کیا ہے، ان سے رک جائے۔ [2] کتاب التعریفات ص ۶۸۔ [3] اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: راقم السطور کی کتاب : تقویٰ : اہمیت، برکات، اسباب، صفحات ۲۵۔۲۸۔