کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 32
طرف سے استغفار و توبہ ہوگی، رحمن و رحیم ربِّ کریم کی طرف سے اس کے لیے لازماً وسعتِ رزق اور خوش حالی ہوگی۔ مشہور مفسرِ قرآن شیخ محمد امین شنقیطی لکھتے ہیں: ’’یہ آیتِ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ گناہوں سے استغفار و توبہ کرنا فراخیٔ رزق ، تونگری اور خوش حالی کا سبب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے استغفار و توبہ کو بطور (شرط )اور تونگری اور خوش حالی کو بطور (جزا) ذکر فرمایا ہے۔‘‘[1] ۴: حضراتِ ائمہ احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ أَکْثَرَ مِنَ الْاِسْتِغْفَارِ جَعَلَ اللّٰہُ لَہٗ مِنْ کُلِّ ہَمٍّ فَرَجًا، وَمِنْ کُلِّ ضِیْقٍ مَّخْرَجًا، وَرَزَقَہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحَسِبُ۔‘‘[2] ’’جس نے کثرت سے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی، اللہ تعالیٰ اُسے ہر غم سے نجات دیں گے، ہر مشکل سے نکال دیں گے اور اُسے
[1] أضواء البیان ۳/۹۔ [2] المسند، رقم الحدیث ۲۲۳۴، ۴/۵۵۔ ۵۶؛ وسنن أبي داود، أبواب قیام اللیل، تفریع أبواب الوتر، باب في الاستغفار، رقم الحدیث ۱۵۱۵، ۴/۲۶۷؛ وکتاب السنن الکبریٰ، کتاب عمل الیوم واللیلۃ، (الإکثار من الاستغفار) ثواب ذٰلک، رقم الحدیث ۱۰۲۱۷، ۹/۱۷۱؛ وسنن ابن ماجہ، أبواب الأدب، باب الاستغفار، رقم الحدیث ۳۸۶۴، ۲/۳۳۹؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب التوبۃ والإنابۃ، ۴/۲۶۲۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔ بعض محدثین نے اس حدیث کو ایک راوی کی وجہ سے (ضعیف] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: التلخیص ۴/۲۶۲؛ وعون المعبود ۴/۲۶۷؛ وضعیف سنن أبي داود ص ۱۴۹)، لیکن امام حاکم اور شیخ احمد شاکر نے اس کی (سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں شیخ احمد شاکر نے راوی پر کیے گئے اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المستدرک ۴/۲۶۲؛ وہامش المسند ۴/۵۵)۔