کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 31
تَوَلَّوْا فَاِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ}[1]
(اور یہ کہ تم اپنے رب سے (گزشتہ گناہوں کی) معافی مانگو اور (آئندہ گناہ کرنے سے) توبہ کرو۔ وہ تمہیں ایک مدتِ معین (یعنی موت) تک اچھی طرح (دنیا کے) مزے اڑانے دے گا اور جس نے زیادہ عبادت کی، اسے زیادہ اجر دے گا اور اگر تم پِھر جاؤ، تو بے شک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔)
اس آیتِ کریمہ میں استغفار و توبہ کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے (متاعِ حسن) (اچھا سازو سامان) عطا فرمانے کا وعدہ ہے اور (متاعِ حسن) عطا کرنے سے مراد… جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے…، یہ ہے، کہ وہ تمہیں تونگری اور فراخی ٔرزق سے نوازیں گے۔[2]
علامہ قرطبی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یہ استغفار و توبہ کا ثمرہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ تمہیں وسعتِ رزق اور خوش حالی سے نوازیں گے اور تمہیں اس طرح عذاب سے نیست و نابود نہیں کریں گے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کو کیا۔‘‘[3]
اس آیتِ کریمہ میں استغفار و توبہ اور وسعتِ رزق میں وہی صلہ اور تعلق ہے، جو صلہ و تعلق (شرط) اور اس کی (جزا) کے درمیان ہوتا ہے۔ استغفار و توبہ کا ذکر بطورِ (شرط) کیا گیا ہے اور فراخیٔ رزق کا بطورِ (جزا)۔ یہ بات معلوم ہے، کہ (شرط) کے پائے جانے پر، (جزا) کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بھی بندے کی
[1] سورۃ ھود ۔ علیہ السلام ۔ / الآیۃ ۳۔
[2] زاد المسیر ۴/۷۵۔
[3] تفسیر القرطبي ۹/۴۔ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر الطبري ۱۵/۲۲۹۔۲۳۰؛ وتفسیر الکشاف ۲/۲۵۸؛ وتفسیر البغوي ۲/۳۷۳؛ وفتح القدیر ۲/۶۹۵؛ و تفسیر القاسمي ۹/۹۳۔