کتاب: رزق کی کنجیاں - صفحہ 27
اموال اور اولاد عطا فرمائیں گے، قسم قسم کے میوہ جات والے باغات عطا فرمائیں گے اور ان باغوں کے درمیان نہریں جاری کریں گے۔‘‘[1]
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنے کے لیے انہی آیاتِ کریمہ میں بیان کردہ بات پر عمل کیا۔ علامہ قرطبی نے امام شعبی کے حوالے سے نقل کیا ہے، کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بارش طلب کرنے کے لیے لوگوں کے ساتھ باہر نکلے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگنے کے سوا ، کچھ بات نہ کی اور واپس آ گئے۔
بارش ہو گئی، تو ان کی خدمت میں عرض کیا گیا: ’’ہم نے آپ کو بارش طلب کرتے ہوئے نہیں سنا۔‘‘
فرمانے لگے: ’’میں نے اللہ تعالیٰ سے آسمان کے ان ستاروں کے ساتھ بارش طلب کی ہے، جن کے ذریعے بارش حاصل کی جاتی ہے۔‘‘[2]
پھر (قرآنِ کریم کی یہ آیاتِ کریمہ) پڑھیں:
{اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا}[3]
(اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو، بے شک وہ بڑے بخشنے والے ہیں۔ آسمان سے تم پر موسلا دھار مینہ برسائیں گے۔‘‘)[4]
[1] تفسیر ابن کثیر ۴/۴۴۹۔
[2] زمانہ جاہلیت میں بعض لوگ گمان کرتے تھے ، کہ ستاروں کی وجہ سے بارش ہوتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (استغفار] کو آسمان کے ستاروں کا نام دے کر ، ان کے باطل گمان کی نفی فرمائی، کہ بارش ستاروں کی وجہ سے نہیں، بلکہ (استغفار] سے حاصل کی جاتی ہے، اگر کسی نے بارش کے لیے آسمانی ستاروں کا نام کسی کو دینا ہے، تو وہ (استغفار] ہی کو دے۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔
[3] سورۃ نوح ۔ علیہ السلام ۔ / الآیتین۱۰۔۱۱۔
[4] تفسیر القرطبي ۱۸؍۳۰۲۔